محی الدین قادری زور
سید محی الدین قادری زور (پیدائش: 6 دسمبر 1904ء – وفات: 25 ستمبر 1962ء)، ادیب، عالم، شاعر، افسانہ نگار، ادبی اور لسانی نقاد، تاریخ دان اور معاشرتی مصلح تھے۔ 25 دسمبر 1905ء (بقول بعض زور صاحب کی تاریخ پیدائش 6 دسمبر 1904ء ہے) حیدرآباد، بھارت میں ان کی ولادت ہوئی۔[1] ابتدئی تعلیم مدرسہ دار العلوم سٹی اسکول میں ہوئی۔ پھر 1927ء میں عثمانیہ کالج سے " لسانی سائنس" میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ادبی اور علمی ذہانت کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد کے فرمانروا نے انھیں وظیفہ دے کر 1929ء میں لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے کے لیے روانہ کیا۔ جہاں انھوں نے " آریائی زبانوں" پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ 1930ء میں انھوں نے فرانس میں لسانی تحقیق پر خصوصی تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ ہندوستاں واپس آ گئے۔ ہندوستان واپس آکر زرو صاحب چندر گھاٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس کے بعد جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں وہ اپنی وفات تک کشمیر کی سری نگر یونیورسٹی میں اردو اور فارسی مطالعات کے شعبے مین درس و تدویس کے فرائص انجام دیتے رہے۔ انھوں نے اکسٹھ (61) کتابیں تصنیف کیں اور ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں اردو رائج کرنے میں بڑی خدمات سر انجام دیں۔ وہ اردو میں ماہر لسانیات کے طور پر معروف ہیں۔ انھوں نے لسانی تحقیق، معاشرتی روداد نگاری، عالمانہ تنقید کے علاوہ افسانے لکھے اور شاعری بھی کی۔ ان کی شاعری "حب ترنگ"۔۔ "گلزرا اب رہی م" کے نام سے چھپ چکی ہے۔ زرو صاحب نے اردو کی ترویج کے لیے "ادبیات اردو " (المعرف ایوان اردو) کی بھی بنیار رکھی۔ جس کا مقصد قدیم اردو کے اور علمی ورثے اور پرانے متنوں کو نیا افق فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے ابوالکلام آزاد تحقیقی انسیٹوٹ بھی قائم کیا اور ادبی اور علمی جریدہ " سب رس" جاری کیا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہوتا ہے۔ کراچی سے بھی شاہد حمید مرحوم بھی ایک عرصے تک شمالی ناظم آباد سے " سب رس" نکالتے رہے۔
محی الدین قادری زور | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6 دسمبر 1904ء ریاست حیدرآباد |
وفات | 25 ستمبر 1962ء (58 سال) سری نگر |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
ملازمت | جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
تصنیف و تالیف
ترمیممحی الدیں قادری زور کے علمی اور ادبی کارناموں پر خلیق انجم نے کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کی سب سے معروف کتاب "ہندوستانی لسانیات" ہے۔ اس کے علارہ انھوں نے " ہندوستانی لسانیات" کے نام سے انگریزی میں بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں، " طلسمات خیال"، شاعر گولکنڈہ" " گولکنڈہ، کے ہیرے"، دکنی ادب کی تحریک"، "کلیات قطب شاہ"، " حیات میر محمدمومن"، داستان ادب حیدر آبا د"، " تذکرہ مخطوطات اردو" (دو جلدیں)، " طالب موہنی"، معنی شکن" (اس کتاب میں مغرب میں 1970ء اٹھنے والی فکری نظریہ "ردتشکیل" کو زور صاحب نے ساٹھ (60) سال پہلے پیش کردیاتھا) انھوں نے کلیات محمد قلی قطب شاہ کے تدویں بھی کی۔ زرو صاحب نے نواب رفعت یار جنگ کی صاحب زادی تحینت النساء سے شادی کی۔ جو اردو کی باقاعدہ پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کے تین دیوانوں میں ۔۔"صبر شکر"، ۔۔ سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ ان کی چار (4) صاحب زادیاں اور پانچ (5) صاحب زادگان تھے۔ زرو صاحب کی ایک بیٹی زہرہ کا انتقال ستمبر 1962ء میں ہوا اور وہ خاینار شریف میں رزق خاک ہوئی۔ محی الدین زرو صاحب 1931ء تک ادارہ ادبیات اردو میں اپنے آبائی مکان "تھنات منزل"، حیدرآباد میں مقیم رہے۔
شادی
ترمیمان کی ایک بیٹی تہذیب زہرہ عربی کی عالمہ ہیں۔ 1960ءمیں وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں پڑھاتی رہی۔ ان کی شادی 7 مئی 1961ء کو ڈاکٹر یحیی علی احمد فاروقی سے ہوئی جو زرو صاحب کے دوست پروفیسر لطیف احمد فاروقی ے صاحبزادے تھے۔ بھر وہ 1964ء میں پاکستان چلے گئے تھے۔ ان کی دوسری بیٹی توقیر زہرہ نے پاکستاں میں ایک فوجی میجر عبد القیوم سے شادی کی۔ ان کی تیسری بیٹی آرکیٹیکچر ہیں وہ اب برطانوی شہری ہیں۔ زرو صاحب کے تمام صاحبزداگان حیدراباد، ہندوستان میں مقیم رہے۔
وفات
ترمیمسید محی الدین قادری زور کا انتقال سری نگر، کشمیر میں 25 ستمبر، 1962ء کو ہوا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Legend of Bhagmati is the Monument's Raison D'etre"۔ timesofindia.indiatimes.com۔ 25 اکتوبر 2001۔ 2013-11-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-30