گیارہویں صدی ہجری کے مقبول زمانہ بزرگ سیدنا امیر ابوالعُلا ( 1651-1592) کی ولایت و کرامات اور خوارق و عادات سے ایک زمانہ روشن ہے، آپ سلسلہ ابوالعلائیہ کے بانی اور عہد شاہجہانی کے مشہور صوفی گذرے ہیں۔[1]

آگرہ میں واقع سلسلہ ابوالعلائیہ کے بانی حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کے درگاہ کی ایک خوبصورت تصویر

پیدائش و نام ترمیم

آپ کی پیدائش 990ھ مطابق 1592ء میں دہلی کے قریب قصبہ نریلہ میں ہوئی،اسم گرامی امیر ابوالعُلا، امیر آپ کا موروثی لقب ہے اورتخلص انسان ہے، آپ میر صاحب،سیّدنا سرکار، محبوب جل و عَلا اور سرتاجِ آگرہ جیسے خطاب سے مشہور ہیں، والد کانام امیر ابوالوفا اور والدہ بیگم بی بی عارفہ تھیں، ان کے علاوہ آپ کی ایک ہمشیرہ بھی تھیں، والد کی طرف سے سید عبد اللہ باہر خلف امام زین العابدین کی اولاد سے ہیں اور والدہ کی جانب سے حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں ہیں ۔[1]

خاندانی پسِ منظر ترمیم

آپ کے آبا و اجداد کسی زمانے میں کِرمان میں سکونت پزیر تھے، امیر عماد الدین امر جاج کے نبیرہ امیر تقی الدین کِرمانی جو مرزا شاہرُخ (بادشاہ)کے عہد میں کِرمانسے ہجرت کرکے سمر قند تشریف لائے اور مولانا قطب الدین رازی سے تحصیل ِ علوم ظاہری کی کرکے تھوڑے دِنوں میں عالم الدّہر اور فاضل العصر ہو گئے، چنانچہ سلسلہَ ارادت آپ کا چند واسطے سے شہاب الدین سہروردی سے ملتا ہے کہتے ہیں کہ اصرار سے مرزاشاہرُخ کے شہر سمرقند میں آپ نے توطُن اختیار کیا وہیں انتقال فرمایا''[1]واضح ہوکہ خواجہ عبید اللہ احرار اور امیر تقی الدین کِرمانی دونوں ہم عصر اور دوست ہیں، دونوں بزرگ کا مزار بھی ایک ہی جگہ پرسمرقند میں واقع ہے، روایت ہے کہ امیر تقی الدین کِرمانی کے جنازہ کو خواجہ عبید اللہ احرار اپنے دوش پر مزار تک لے گئے ہیں، اس وقت دونوں خانوادہ میں بڑی قربت ہو چکی تھی،[1] اس کی ایک مثال یوں دیکھیے کہ سیّدنا امیر ابوالعُلا خواجہ فیض المعروف فیضی ابن خواجہ ابو الفیض کے نواسہ ہوئے، آپ کے والد امیر ابوالوفا، خواجہ ابوالفیض ابن خواجہ عبد اللہ عرف خواجکا (متوفیٰ 908ھ )کے نواسہ ہوئے اور آپ کے جد امیر عبد السلام، خواجہ عبد اللہ عرف خواجکا ابن خواجہ عبیداللہ احرارکے نواسہ ہوئے اور اس طرح امیر عبد السلام کے والد ماجد امیر عبد الملک، خواجہ عبد اللہ عرف خواجکاکے خویش ہوئے ،[1] امیر ابوالعلا کا کئی پشتوں سے نانیہالی خاندان شاہ بیگ خان کے قبضے کے بعد مشکلات کا شکار ہوتاچلاگیا، ماہِ محرم 906ھ میں خواجہ عبیداللہ احرار کے صاحبزادے خواجہ محمد یحییٰ(متوفیٰ 906ھ) اور اُن کے دو بیٹے (محمد زکریا اور عبد الباقی)اپنے والد محترم کے ہمراہ شہید ہوئے۔[1] امیر تقی الدین کِرمانی کے صاحبزادے امیر عبدلباسط سمرقند کے رہنے والے تھے ،سمرقند میں آپ کے خاندان کے افراد دولت و ثروت اور جاہ و مَنْصَب کے علاوہ شجاعت و بہادری اور زہد و تقویٰ کے لیے مشہور تھے، ان کے دوفرزند تھے امیر عبد الملک اور امیر زین العابدین، امیر عبد الملک کے صاحبزادے امیرعبدالسلام سمرقندسے سکونت ترک کرکے اپنے اہل و عیال کے ساتھ لاہور ہوتے ہوئے قصبہ نریلہ جو دہلی کے قریب میں واقع ہے قیام کیا (اُسی اثنا میں سیدنا امیر ابوالعُلاکی پیدائش ہوئی) کچھ عرصہ بعد فتح پور سیکری پہنچے وہاں جلال الدین اکبر سے ملاقات ہوئی، اکبر کی درخواست پر آپ نے یہاں قیام کرنا منظور کیا ۔[1] امیر ابوالعلا ابھی آپ کم سِن ہی تھے کہ والد کو درد قولنج کی شکایت ہوئی اور اُسی مرض میں انھوں نے فتح پور سیکری میں وفات پائی، نعش کو دہلی لے جایا گیا اور وہیں مدْرسہ لَعل دروازہ کے قریب سُپردخاک کیا گیا۔

نسب نامہ پدری[1] ترمیم

امیر ابوالعُلا ابن امیر ابوالوفا ابن امیر عبد السلام ابن امیر عبد الملک ابن امیر عبد الباسط ابن امیر تقی الدین کِرمانی ابن امیر شہاب الدین محمودا بن امیر عمادالدین اَمر جاج ابن امیر علی ابن ا میر نظام الدین ابن امیر اشرف ابن امیرا عزالدین ابن امیر شرف الدین ابن امیر مجتبیٰ ابن امیر گیلانی ابن امیر بادشاہ ابن امیرحسن ابن امیر حُسین ا بن امیرمحمدابن امیر عبد اللہ ا بن امیر محمد ابن امیر علی ابن امیر عبد اللہ ابن امیر حسین ابن امیر اسماعیل ا بن امیر محمدابن امیر عبدا للہ باہر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن علی مرتضیٰ ابن ابی طالب۔[1]

نسب نامہ مادری ترمیم

امیر ابوالعُلا ا بن بی بی عارفہ بنت خواجہ محمد فیض ابن خواجہ ابوا لفیض ابن خواجہ عبد اللہ خواجکا ابن خواجہ عبید اللہ احرار ابن خواجہ محمود ابن خواجہ شہاب الدین شاشی (چار پشت بعد)خواجہ محمد النامی بغدادی سے ہوتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق سے جاملتا ہے۔[1]

تعلیم و تربیت ترمیم

والد کے بعد آپ کے دادا امیر عبد السلام ہر طرح سے دل جوئی کرتے رہے آپ کے دادا سفرحج پر روانہ ہوئے تو پھر بھارت واپس تشریف نہ لاسکے اور وہیں انھوں نے وفات پائی مزار جنت البقیع میں ہے،سفرحج سے قبل آپ کے دادا نے آپ کو اپنے نانا خواجہ محمد فیض المعروف بہ فیضی خلف خواجہ ابوالفیض کے سُپرد فرمایاتھا ابھی آپ اچھی طرح سِن شعور کو پہنچے بھی نہ تھے کہ نانا نے بھی ایک مُہم میں جام شہادت نوش کیا اس طریقے سے آپ کا خاندان بچپن میں کئی طرح کے صدمے کا شکار ہوتا چلا گیا [1] آپ کے نانا خواجہ محمد فیض المعروف خواجہ فیضی بردھامن میں حاکم مان سنگھ کی طرف سے نظامت کے عُہدے پر فائز تھے،دادا کی رحلت کے بعد خواجہ فیضی آپ کو اپنے ہمراہ بردھامن لے گئے آپ کی تعلیم و تربیت نانا کی نگرانی میں ہوئی، آپ کے نانا نہ صرف ایک مُغل عہدے دار تھے بلکہ اپنے بلند مرتبہ آباو اجداد کے علوم و فنون سے بھی آراستہ و پیراستہ تھے انھیں کی صحبت میں آپ تیزی کے ساتھ کمال معرفت تک پہنچے ،[1] اپنے نانا کے ذریعہ فن سِپہ گری اور تیراندازی میں بے مثال ثابت ہوئے، معاملہ فہمی، راست گوئی،خوش تدبیری، اِستقلال،شُجاعت اور جواں مردی کا بہت جلد اعلیٰ نمونہ بن گئے۔[1]

بیعت و خلافت ترمیم

جب دِل اللہ کی جانب متوجہ ہوا تو بردوان سے کہیں دور جاکر عبادت میں مشغول ہونا چاہا، بہ سلسلہَ ملازمت بردھامن میں مقیم تھے کہ جلال الدین اکبر کوچ کر گئے، نورالدین جہانگیر تخت ِ شاہی پرجب رونق افروز ہوا تو عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد ایک فرمان جاری کیا کہ جملہ صوبے دار ،مَنصَب دار ،ناظم اور اُمراء آگرہ شاہی دربار میں حاضر ہوں تاکہ اُن کی ذہانت، قابلیت، وجاہت اور شخصیت کو پَرکھا جائے آپ تو خود ہی ملازمت سے بے زار تھے اور اس راہ کو ترک کرکے دوسری راہ اختیار کرنا چاہتے تھے جب یہ شاہی فرمان بردوان پہنچا تو اُس کو تائید غیبی سمجھ کر سفر پر نکل پڑے، بردوان سے شہر پٹنہ ہوتے ہوئے منیر شریف پہنچے کسی نے یہ اطلاع دی کہ یہاں فاتحِ منیر امام محمد تاج فقیہ کے نبیرہ اور مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے خانوادہ سے وابستہ مخدوم دولت منیری تشریف رکھتے ہیں تو کچھ وقت آپ ان کی صحبت میں بیٹھے۔ جب آگرہ پہنچے تو جہاں گیر کے دربار میں آپ کے حُسن و جمال کے چرچے ہونے لگے ایک روز دیوان ِخاص میں جہاں گیرنے لوگوں کی آزمائش کی خاطر نارنگی پہ نشانہ بازی رکھا، خیال ہواکہ امیر ابوالعُلا کو بلاوَ چنانچہ آپ کا پہلا نشانہ خطا کرگیا لیکن دوسرا نشانہ دُرست ہوا آپ کی اِس سُبک دستی پر سب حیران تھے خوشی کے مارے نورالدین جہانگیر نے ایک جام شراب کا آپ کو بڑھایا لیکن آپ نے نظر بچاکر شراب کو آستین میں ڈال دیا، بادشاہ نے گوشہ َ چشم سے دیکھ لیا اور کَبیدہ ہوکر کہا کہ یہ خود نمائیاں مجھ کو پسند نہیں نشہَ شراب میں بدمست تو تھا ہی، پھر جام دیا اور آپ نے پھر ویسا ہی عمل کیا، نہایت تُرش رو ہوکر کہا کیا تم غضب سلطانی سے نہیں ڈرتے ہو بس اب آپ کو جلال آگیا اور فرمایا میں غصب خدا و رسول سے ڈرتا ہوں ناکہ غضب سلطانی سے اور نعرہ مارا کہ سب کے سب کانپ اُٹھے پھر مرضیَ خدا دو شیر غرّاں آپ کے دونوں جانب نمودار ہو گئے خوف و بدحواس میں سارے کے سارے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے اور پھر مستقل راہ فقر اختیار کر لیا، خواجہ معین الدین چشتی سے آپ کو فیضان اویسی ملا ہے اور انھیں کے حکم سے اپنے چچا امیر عبد اللہ نقشبندی سے مرید ومجاز ہوئے کچھ عرصہ بعد چچامحترم نے خلافت سے نواز کر آپ کو خاندانی تبرکات تفویض فرمائے۔[1]

تصنیفات و شعر و شاعری ترمیم

آپ صاحب تصانیف بزرگ ہیں۔

  • رسالہ فناو بقا
  • مکتوبات ابوالعلا[2]

آپ شعروشاعری کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، انسان تخلص تھا، فرماتے ہیں۔

سر رشتہَ نسب بہ علی و ولی رسید

اِنسان تخلصم شد نامم ابوالعلا[2]

 
سلسلہ ابوالعلائیہ کی ایک مشہور خانقاہ جو بھارت کے شہر داناپور میں واقع ہے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ

وصال حق ترمیم

وقت نماز اشراق بروز سہ شنبہ 9 صفر المظفر 1061ھ کو آگرہ میں انتقال فرمایا، ہر سال اسی تاریخ میں آپ کا عرس نہایت شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ شاہ قاسم ابوالعلائی داناپوری۔ نجات قاسم 
  2. ^ ا ب کاظم علی خان۔ تذکرہ اولیائے ابوالعلائیہ 

مزید دیکھیے ترمیم