شداد ابن اوس انصاری صحابی ہیں، حضرت حسان بن ثابت کے چچا زاد بھائی ہیں۔

شداد بن اوس
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 604ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 683ء (78–79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد اوس بن ثابت   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

شداد نام، ابو لیلیٰ و ابو عبد الرحمان کنیت قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ شاعر مشہور کے چچازاد ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، شداد بن اوس بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج۔

آپ کے والد اوس بن ثابت کو بیعت عقبہ ثانیہ اور بدر کی شرکت کا فخر حاصل تھا اور غزوہ احد میں شہادت پائی، شداد کی والدہ کا نام صریمہ تھا اور بنو نجار کے خاندان عدی سے تھیں۔

اسلام

ترمیم

باپ، چچا اور تقریباً تمام خاندان مشرف بہ اسلام ہو چکا تھا، شداد بھی انہی لوگوں کے ساتھ ایمان لائے۔

غزوات اور عام حالات

ترمیم

چونکہ کمسن تھے غزوات میں شاذ و نادر حصہ لیا، امام بخاری نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر میں شریک تھے، لیکن یہ صحیح نہیں۔

عہد نبوت کے بعد شام میں سکونت اختیار کی، فلسطین، بیت المقدس اور حمص میں قیام پزیر رہے۔

وفات

ترمیم

58ھ میں بعمر 75سال، رملہ میں انتقال فرمایا اور بیت المقدس میں دفن ہوئے۔ اولاد میں لیلیٰ اور محمد تھے۔

فضل وکمال

ترمیم

فضلا صحابہ میں تھے، حضرت عبادہؓ بن صامت جو اساطینِ امت میں تھے اور صحابہؓ کے عہد میں علوم و فنون کا مرجع تھے، فرمایا کرتے تھے: لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں، بعض عالم ہوتے ہیں لیکن غصہ ور اور مغلوب الغضب، بعض حلیم اور برد بار ہوتے ہیں؛ لیکن جاہل اور علوم و فنون سے بے بہرہ ہوتے ہیں، شداد ان چند لوگوں میں ہیں جو علم و حلم کے مجمع البحرین تھے۔ ایک مرتبہ خدمت اقدس نبوی میں حاضر تھے، چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی، ارشاد ہوا: کیا ہے؟ بولے یا رسول اللہ ! مجھ پر دنیا تنگ ہے۔ فرمایا: تم پر تنگ نہ ہوگی، شام اور بیت المقدس فتح ہوگا اور وہاں تم اور تمھاری اولاد امام ہوگی، یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری اتری، وہ اپنی اولاد کے ساتھ بیت المقدس میں اقامت گزیں ہوئے اور تمام شام کے علم و فضل میں مرجع بن گئے۔[1] مسجد جابیہ میں، ابن غنم حضرت ابو درداءؓ اور حضرت عبادہ بن صامتؓ ٹہل ٹہل کر باتیں کر رہے تھے، حضرت شدادؓ بھی آپہنچے اور کہا لوگو! مجھ کو تم سے جو کچھ ڈر ہے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت پیروی نفس اور شرک میں مبتلا ہو جائے گی، اخیر کا فقرہ چونکہ تعجب انگیز تھا، حضرت ابودردا ؓ اور حضرت عبادہؓ نے اعتراض کیا اور اس کی سند میں ایک حدیث پیش کی کہ شیطان جزیرہ عرب میں اپنی پرستش سے بالکل ناامید ہو چکا ہے، پھر ہمارے مشرک ہونے کے کیا معنی؟ حضرت شدادؓ نے فرمایا ایک شخص نماز، روزہ اور زکوٰۃ ریاءً ادا کرتا ہے، آپ لوگ اس کو کیا سمجھتے ہیں، سب نے جواب دیا مشرک، فرمایا میں نے اس کے متعلق خود آنحضرت ﷺ سے حدیث سنی ہے کہ ان چیزوں کو ریاءً بجا لانے والا مشرک ہوتا ہے، حضرت عوف بن مالکؓ بھی ساتھ تھے، بولے کہ جتنا عمل خالص ہوگا اس کے قبول ہونے کی امید ہے، باقی جس میں شرک کی آمیزش ہے وہ مردود ہوگا اس بنا پر ہم کو اپنے عمل پر اعتماد کرنا چاہیے، حضرت شدادؓ نے جواب دیا کہ حدیث قدسی میں لکھا ہے کہ مشرک کا تمام عمل اس کے معبود کو دیا جائے گا، خدا اس کا محتاج نہیں،[2] (یہ قرآن مجید کے بالکل مطابق ہے، ارشاد ربانی ہے،إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ الخ)

حدیث میں فہم و بصیرت حاصل تھی اور اصول درایت اور نقد سے کام لیتے تھے، حضرت ابوذر غفاریؓ جن کے زہد و قناعت اور ترک دنیا کی حدیثوں نے تمام شام میں کھلبلی ڈال دی تھی، ان کے متعلق رائے دیتے ہیں:

كَانَ أَبُو ذَرٍّ يَسْمَعُ الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ الشِّدَّةُ ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى قَوْمِهِ يُسَلِّمُ لَعَلَّهُ يُشَدِّدُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَخِّصُ فِيهِ بَعْدُ فَلَمْ يَسْمَعْهُ أَبُو ذَرٍّ فَيَتَعَلَّقَ أَبُو ذَرٍّ بِالْأَمْرِ الشَّدِيدِ

وہ آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث جس میں شدت اور سختی ہوتی تھی سنتے تھے پھر اپنی قوم میں جا کر اس کی اشاعت کرتے تھے بعد کو آنحضرت ﷺ اس سخت حکم میں رخصت عطا فرما دیتے تھے، لیکن ابو زرؓ کو خبر تک نہ ہوئی، اس بنا پر وہ اپنی اسی شدت پر قائم رہے۔

حضرت شدادؓ کے سلسلہ سے جو حدیثیں مروی ہیں ان کی تعداد 50 ہے، انھوں نے اکثر آنحضرت ﷺ سے اور کچھ کعب احبار سے حدیثیں سنی تھیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں بہت سے اہل شام ہیں منتخب حضرات کے نام یہ ہیں محمودؓ بن لبید، یعلیٰ، ابو الاشعث سففانی، ضمرۃ بن حبیب، ابو ادریس خولانی، محمود بن ربیع۔

اولاد

ترمیم

حسب ذیل اولاد چھوڑی، لیلیٰ اور محمد

اخلاق

ترمیم

اخلاق و عادات یہ تھے کہ نہایت عابد اور پرہیز گار تھے، خدا سے ہر وقت خوف کھاتے تھے بسا اوقات رات کو آرام فرمانے کے لیے لیٹتے پھر اٹھ بیٹھتے اور تمام رات نماز پڑہتے کبھی کبھی منہ سے نکلتا۔

اللھم ان النار قد حالت بینی وبین النوم خدایا آتش جہنم میرے اور نیند کے درمیان حائل ہو گئی ہے۔ اسد بن وداعہ کا یہ فقرہ بھی اس مقام پر قابل لحاظ ہے، کہتے ہیں: کان شداد بن اوس اذا اخذ مضجعہ من اللیل کان کالحبۃ علی المقلی۔[3]

شدادؓ جب رات کو لیٹتے تو خوف سے اس قدر بے چین اور متاثر ہوتے جیسے بھاڑ میں چنا۔

نہایت حلیم اور کم سخن تھے، تاہم جب گفتگو کرتے تو دل آویز اور شیریں ہوتی، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ شداد دو خصلتوں میں ہم سے بڑھ گئے۔

ببیان اذا انطق وبکظم اذا غضب

بولنے کے وقت وضاحت بیان میں اورغصہ کے وقت حلم،عفو و درگزر میں۔

حفظ لسان اور کم سخنی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ سفر میں تھے، غلام سے کہا چھری لاؤ، اس سے کھیلیں! ایک شخص نے ٹوکا تو فرمایا:

ما تکلمت بکلمۃ مذ اسلمت وانا اخطمعھا وازمھا الا کلمتی ھذہ فلا تحفظوھا عنی

جب سے مسلمان ہوا، میرے منہ میں لگام رہی، آج یہ کلمہ منہ سے نکل گیا، تو تم اس کو بھول جاؤ۔ مسلمانوں کے انقلاب اور تغیر کو نہایت سختی سے محسوس کرتے تھے ایک مرتبہ رونے لگے لوگوں نے وجہ دریافت کی تو ارشاد ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا،[4] کہ مجھے اپنی امت کے خواہش نفس اور شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کی امت مشرک ہوجائے گی؟ فرمایا ہاں ،لیکن اس طرح کہ سورج ،چاند، بت پتھر کو نہ پوجے گی، البتہ ریاء اور مخفی خواہشوں کا غلبہ ہوگا صبح کو آدمی روزہ دار اٹھے گا ؛ لیکن جب خواہش تقاضا کرے گی تو وہ روزہ بے خوف و خطر توڑ دے گا۔[5]

مریضوں کی عیادت کرتے تھے، ابو اشعث صفانی شام کے قریب مسجد دمشق میں تھے کہ حضرت شدادؓ اور صنابجی سے ملاقات ہوئی، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ جواب دیا ایک بھائی بیمار ہے، اس کی عیادت کو جاتے ہیں یہ بھی ساتھ ہو گئے، اندر جا کر مریض سے پوچھا کیا حال ہے؟ بولا اچھا ہوں، حضرت شدادؓ نے کہا، ابشر بکفارات السئیات وحط الخطایا، یعنی میں تم کو مرض کے کفارہ گناہ ہونے کی بشارت سناتا ہوں، حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص خدا کے ابتلا میں اس کی حمد کرے اور راضی برضا رہے تو وہ اس طرح پاک و صاف اٹھتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔[6]

بارگاہِ رسالت میں خصوصیت اور حب رسول اللہ ﷺ کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ کے دوران میں آنحضرتﷺ ایک روز بقیع تشریف لے گئے تو حضرت شدادؓ ہمراہ تھے اور آپ ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔[7]

ایک مرتبہ خدمت اقدس میں حاضر تھے، چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی، ارشاد ہوا کیا ہے؟ بولے یا رسول اللہ ! مجھ پر دنیا تنگ ہے فرمایا تم پر تنگ نہ ہوگی شام اور بیت المقدس فتح ہوگا اور وہاں تم اور تمھاری اولاد امام ہوگی، یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری اتری، وہ اپنی اولاد کے ساتھ بیت المقدس میں اقامت گزیں ہوئے اور تمام شام کے علم و فضل میں مرجع بن گئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. اسد الغابہ:2/387
  2. (مسند ابن حنبل:4/126)
  3. (اسد الغابہ:2/388)
  4. (مسند ابن حنبل:4/123)
  5. (مسند ابن حنبل:4/124)
  6. (مسند ابن حنبل:4/123)
  7. (مسند ابن حنبل:4/124)