شیخ محمد
شیخ مُحمد (1560–1650) کو شیخ مَحَمد، سید شیخ مَحَمد قادری، شیخ محمد شری گونڈیکر، شیخ مَحَمد بابا بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک مسلم سنت اور شاعر تھے جن کی عزت ہندو بھی کرتے ہیں۔ وہ مراٹھی زبان کے سب سے مشہور مسلمان شاعر ہیں۔[1] انھوں نے ”یوگا سنگرام“ لکھی ہے۔
شیخ محمد | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | 1560 وہیرا، تعلقہ اشٹی، ضلع بیڑ، ریاست مہاراشٹر |
وفات | 1650ء (عمر 89–90) ان کی جائے وفات دو ہیں، ایک شری گونڈہ (ضلع احمد نگر) دوسری ان کی پیدائش کی جگہ |
مذہب | ہندومت |
فلسفہ | ادویت |
مرتبہ | |
گرو | چنگا بودھالے |
ادبی کام | یوگا سنگرام، ابھنگ عقیدت کی شاعری |
پسِ منظر
ترمیمشیخ محمد کی پیدائش اور ساری زندگی شری گونڈا میں بسر ہوئی جو ہندوستان میں مہاراشٹر میں واقع ہے۔ ان کے والد راج محمد تھے جو قادری صوفی تھے۔ ان کے گرو ہندو ویشنو مت (ایسا ہندو فرقہ جو بھگوان وشنو کی پوجا کرتا ہے) سے تعلق رکھنے والے چنگا بودھالے تھے جو جناردن سوامی کے بھی گرو تھے جو ایک ناتھ کے گرو تھے۔ چنگا بودھالے کو صوفی روایات کے مطابق سعید چنگا صاحب قادری بھی کہا جاتا ہے۔ انھیں ہندو بھگوان دتاتریا کا اوتار مانا جاتا ہے جو شیخ محمد کے والد کے شاگرد تھے۔[2][3]
تعلیمات اور کام
ترمیمشیخ محمد یوگا سنگرام، پونا وجیا، نش کلنک پربودھ اور گیان ساگر وغیرہ کے مصنف بھی ہیں۔[4] ان کی تصانیف میں ہندو بھکتی اور مسلم صوفی روایات واضح دکھائی دیتی ہیں۔ شیخ محمد ہندو فلسفے میں ادویت ویدانت مکتبِ فکر سے متاثر تھے۔[1] ان کی تحاریر میں بھکتی تحریک سے متعلق ان کی معلومات ظاہر ہوتی ہیں۔[1]
یوگا سنگرام 1645 میں لکھی گئی اور اس میں 2،319 نظمیں شامل ہیں اور اسے شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔[2] ان کی فلسفیانہ تخلیقات کا بنیادی نکتہ ‘خدا کی پہچان اور اس کے تجربے کے لیے روح کی جدوجہد‘ ہے۔[3]
شیخ محمد ہندو صحیفوں جیسا کہ پران اور دیگر صحائف کے فلسفے سے مثالیں دیتے ہیں۔ یوگا سنگرام میں ہندو بھگوانوں رام، کرشن (دونوں ہی وشنو کی شکلیں ہیں)، وشنو اور شیو کے حوالے موجود ہیں۔ اس کے تمام اٹھارہ ابواب گنیش کی پوجا سے شروع ہوتے ہیں۔ تاہم شیخ محمد کی تحاریر میں توحید پر مبنی عقائد ملتے ہیں جو اسلام کی بنیاد ہیں۔ شیخ محمد خدائے واحد کی تبلیغ کرتے ہیں۔[1][5]
یاد
ترمیممہاراشٹر میں شیخ محمد کو سنت شاعر کے طور پر اور بھکتی تحریک کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔ صوفی شاعر رام داس جو کٹر ہندو اور شیخ محمد کے ہم عصر تھے، نے بھی شیخ محمد کو بڑا سنت مانا ہے۔[3]
شیخ محمد کو مسلمان سنت شاعر کبیر کا اوتار مانا جاتا ہے۔[2] کبیر مسلمان سنت شاعر تھے جن پر رام کا سایہ تھا اور رام وشنو کے اوتار بھی تھے۔ شیخ محمد وشنو کی ایک اور صورت کے عقیدت مند تھے۔[6]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت Shankar Gopal Tulpule (1979)۔ A History of Indian Literature: Modern Indo-Aryan literatures. Classical Marathi literature : from the beginning to A.D. 1818۔ Otto Harrassowitz Verlag۔ صفحہ: 377–378۔ ISBN 978-3-447-02047-3
- ^ ا ب پ Antonio Rigopoulos (1985)۔ Dattatreya: The Immortal Guru, Yogin, and Avatara: A Study of the Transformative and Inclusive Character of a Multi-faceted Hindu Deity۔ SUNY Press۔ صفحہ: 137, 157۔ ISBN 978-1-4384-1733-2
- ^ ا ب پ Günther-Dietz Sontheimer، Hermann Kulke (2001)۔ Hinduism reconsidered۔ Manohar۔ صفحہ: 141, 142, 149۔ ISBN 978-81-7304-385-7
- ↑ Ramesh Chandra Majumdar۔ The History and Culture of the Indian People۔ 7۔ G. Allen & Unwin۔ صفحہ: 580
- ↑ Brajadulal Chattopadhyaya (2005)۔ Studying Early India: Archaeology, Texts, and Historical Issues۔ Orient Blackswan۔ صفحہ: 209۔ ISBN 978-81-7824-143-2
- ↑ J. S. Grewal (2006)۔ Religious Movements and Institutions in Medieval India۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 151۔ ISBN 978-0-19-567703-4