صوبہ غزنی
""غزنی"" (انگریزی:Ghazni فارسی/پشتو: غزنی) افغانستان کے چونتیس صوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ ملک کے مشرقی حصہ میں واقع ہے۔ اس صوبہ کا صدر مقام غزنی شہر ہے۔ یہ صوبہ اہم فوجی و تجارتی شاہراہ جو کابل کو قندھار سے ملاتی ہے، پر واقع ہے۔ زمانہ قدیم سے یہ علاقہ کابل اور قندھار کے درمیان ایک اہم تجارتی گزرگاہ کی حیثیت سے مشہور رہا ہے۔
صوبہ | |
متناسقات (شہر): 33°30′N 68°00′E / 33.5°N 68°E | |
ملک | افغانستان |
Capital | غزنی |
رقبہ | |
• کل | 22,915 کلومیٹر2 (8,848 میل مربع) |
آبادی (2013)[1] | |
• کل | 1,387,185 |
• کثافت | 61/کلومیٹر2 (160/میل مربع) |
منطقۂ وقت | UTC+4:30 |
آیزو 3166 رمز | AF-GHA |
لسان | دری ہزارگی پشتو |
تاریخ
ترمیمبدھا اور ہندوستانی تہذیبی اثرات
ترمیمساتویں صدی میں غزنی کا علاقہ بدھا تہذیب کا ایک بڑا مرکز مانا جاتا تھا۔ یہاں ہندو اور بدھا ثقافت کے اثرات اب بھی جا بجا ملتے ہیں۔
644ء میں یہاں چینی سیاح ہوسان سانگ جو بسلسلہ مذہبی رسومات یہاں سفر کر کے پہنچے، ان کی تصانیف میں غزنی کے علاقے کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔
اسلام کی آمد
ترمیم683ء میں یہاں عرب تجارتی قافلوں اور تبلیغ کی سبب اسلام کی آمد ہوئی۔ یہاں عربوں نے بیشتر حملے بھی کیے جن کا غزنی میں آباد قبائل نے انتہائی طاقت سے جواب دیا۔ یہ مزاحمت اتنی پر اثر تھی کہ یعقوب سفری (879ء-840ء) جن کا تعلق زرناج سے تھا، انھوں نے غزنی میں ہوئی مزاحمت کی مثالیں کئی تصانیف میں دیں ہیں۔ ان کی تصانیف اسلام کی مختلف علاقوں میں پہنچنے کے حوالے سے انتہائی مستند تصور کی جاتی ہیں۔ سفریوں نے 869ء میں غزنی شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ بعد ازاں محمود غزنوی نے فوجی اور تبلیغی جماعتوں کی مدد سے یہاں اسلام کا بول بالا کیا اور کئی بدھا اور ہندو قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
اس شہر کی تعمیر نو کا کام یعقوب سفری کے بھائی نے سر انجام دیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ غزنوی سلطنت کا 994ء سے 1160ء تک صدر مقام رہا۔ اس سلطنت کی سرحدیں شمالی ہندوستان، فارس اور وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ محمود غزنوی نے یہیں سے ہندوستان میں اپنی شہرہ آفاق سترہ مہمات کا انتظام سنبھالا۔ غزنویوں نے ہندوستان میں اسلام پھیلایا اور یہاں کے مندروں سے کئی جواہرات اور قیمتی سامان غزنی منتقل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مندروں سے منتقل کیے جانے والے قیمتی جواہرات کو غزنی کے محلات اور کئی یادگاروں اور کتب خانوں کی تعمیر میں استعمال کیا گیا، لیکن اس نظریہ کی کسی بھی حوالے سے تصدیق کرنا بعد کے غوری اور چنگیزی حملوں کے باعث ممکن نہیں رہا۔
غوری و چنگیزی حملے
ترمیم1152ء میں علاؤالدین غوری نے غزنی پر حملہ کیا اور اس شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ بعد ازاں 1221ء میں چنگیز خان نے ایک بار پھر اس شہر کو نیست و نابود کیا اور اس علاقے کی باقی ماندہ یادگاروں اور کلیدی مقامات کو زمین بوس کر دیا۔ چنگیز خان کی فوجوں نے یہاں خون کی ندیاں بہائیں اور لوٹ مار کی انتہا کر دی
غزنی کا علاقہ یہاں تعمیر شدہ میناروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ بارہویں صدی کے درمیانی دور میں یہاں مسجدوں اور خانقاہوں کی تعمیرات انتہائی ماہر معماروں نے کیں۔ یہاں جیومیٹری کے اصولوں کے عین مطابق انتہائی نفیس تعمیراتی کام کیا گیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ زیادہ تر معمار ہندوستان سے محمود غزنوی کے ساتھ آئے تھے۔ اب کئی میناروں کے گنبدوں والے حصے تباہ ہو چکے ہیں۔
غزنی میں سب سے اہم یادگار سلطان محمود غزنوی کا مقبرہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں تاریخ کے انتہائی معتبر سائنسدان اور شاعر بھی دفن ہیں۔ ال بیرونی اور سنایائی جیسی شخصیات کے مقبرے یہاں واقع ہیں۔
غزنی میں انتہائی روشن ماضی کی دو ہی مثالیں باقی رہ گئی ہیں، جو مینار ہیں اور بالترتیب 43 میٹر اور 365 میٹر بلند ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میناروں کی تعمیر محمود غزنوی اور اس کے بیٹے نے اپنی نگرانی میں مکمل کروائی تھیں۔
1960ء میں یہاں 15 میٹر لمبائی کا ایک خاتون بدھا کا مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا جو منہ کے بل بنایا گیا تھا اور اس کے ارد گرد خالی ستون تھے اور ان کے درمیان مرد بدھا کے نسبتاً چھوٹے مجسمے نصب تھے۔ خاتون بدھا کے مجسمے کے کئی حصے چوری ہو چکے ہیں۔ 1980ء میں یہاں مٹی کی سخت اینٹوں کی مدد سے اس یادگار کے اردگرد ایک دیور اور چھت تعمیر کی گئی تھی تا کہ یہ نایاب آثار محفوظ رہ سکیں۔ افغانستان کے جنگی حالات میں اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے چھت منہدم ہو چکی ہے۔
23 جولائی 1839ء کو برطانوی افواج نے پہلی افغان برطانوی جنگ میں غزنی پر قبضہ کر لیا۔ اس دور میں بھی اور بعد مین سویت حملوں اور طالبان کی شمالی اتحاد سے جھڑپوں میں یہاں کی یادگاروں کو انتہائی نقصان پہنچا۔
گو غزنی کی افغانستان میں معاشی اور فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت ہے لیکن تاریخ دانوں نے اسے انتہائی بدقسمت شہر گردانا ہے۔ پے در پے حملوں نے یہاں ہر دم تباہی مچائے رکھی اور بعض مورخ غزنی اور بغداد کو ماتم کے شہر بھی کہتے ہیں۔
غزنی میں ہندو اور سکھ بھی آباد ہیں۔ طالبان کے دور میں یہ سکھ اور ہندو یہاں سے ہجرت کر گئے لیکن اب دوبارہ سے یہ خاندان واپس آ چکے ہیں۔
موجودہ سیاسی و انتظامی حالات
ترمیمافغانستان کے بیشتر جنوبی صوبوں کی طرح غزنی میں بھی حالات سازگار نہیں ہیں۔ غزنی شہر کے باہر تقریباً دیہی علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے اور یہ صوبے کی سرکاری اسکولوں اور املاک پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ یہاں روایتی جنگ جیسا کہ صوبہ ہلمند یا صوبہ قندھار میں ہوئی دیکھنے میں نہیں آئی جو نیٹو افواج اور صوبہ غزنی کی افغان انتظامیہ کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ 2006ء میں سابق گورنر تاج محمد کو اس وقت طالبان نے قتل کر دیا تھا جب انھیں صوبے میں پولیس کے محکمے کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ تاج محمد بہترین انتظامی صلاحیت رکھنے میں مشہور تھے۔ اس روز گورنر شیر عالم ابراہیمی پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا تھا لیکن وہ بال بال بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
یہاں امریکی اور پولش افواج تعینات ہیں جو صوبائی بحالی میں انتظامیہ کی مدد کر رہی ہیں۔
اپریل 2007ء میں اخباری رپورٹوں میں مطابق بتایا گیا کہ طالبان جنگجوؤں نے صوبہ میں ضلع گیرو پر قبضہ کر لیا۔ طالبان حملہ آوروں نے ضلعی انتظامیہ کے سربراہ، پولیس سربراہ اور تین نفاذ قانون کے ادارے (پاکستان) افسروں کو ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں ایک روز بعد ہی طالبان نے ضلع سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا۔
جولائی 2007ء میں طالبان نے 23 کوریائی ترقیاتی کارکنوں کو اغوا کر لیا۔ طالبان نے یرغمالیوں میں سے 2 کو ہلاک کر دیا۔
قدرتی آفات
ترمیمحالیہ سالوں میں غزنی قحط، برفباری اور سیلابوں کا شکار رہا ہے۔ قحط کے دوران غزنی کے بیشتر حصوں میں دریاؤں میں آنے والی اچانک طغیانی سے دوگنی تباہی مچ گئی۔ حال ہی میں تعمیر کیے گئے کئی منصوبے حالیہ برفباری اور سیلابوں کا شکار ہو گئے۔
حکومت
ترمیمصوبہ غزنی کے حالیہ گورنر عثمان عثمانی ہیں۔
طرز معاشرت اور جغرافیہ
ترمیمیہاں آبد قبائل میں اکثریت پشتون قبائل کی ہے جو کل آبادی کا %51 فیصد ہیں۔ فارسی بولنے والے ہزارہ اور تاجک قبائل %47 فیصد ہیں جبکہ برکی، ازبک قبائل بھی کہیں کہیں آباد ہیں۔ صوبہ غزنی 19 اضلاع پر مشتمل ہے جن کی تفصیل زیل میں بیان کی گئی ہے۔
ضلع کا نام | صلعی صدر مقام | Ethnical data(%) [2] |
---|---|---|
آب بند | حاجی خیل | 100% پشتون |
اجرستان | سنگڑ | 97% پشتون, 3% ہزارہ |
آندڑ | مرے | 100% پشتون |
دے یاک | رمک | 89% ہزارہ, 11% پشتون |
گیلان | جنڈہ | 100% پشتون |
غزنی شہر | غزنی | 50% تاجک, 25% ہزارہ, 25% پشتون |
گیرو | پانا (افغانستان) | 100% پشتون |
جگ ہاتو | گل بہواری | 73% ہزارہ, 27% پشتون |
جوگوڑی | سنگ معشہ | 100% ہزارہ |
کغیانی | کغیانی | 99.9% پشتون, 0.1% ہزارہ, تاجک اور ازبک |
Khwaja Umariخواجہ عمری | خواجہ عمری | 45% ہزارہ, 35% تاجک اور 20% پشتون |
مالستان | مالستان | 100% ہزارہ |
مقر | مقر | 80% پشتون, 20% ہزارہ اور تاجک |
نوا | نوا | 100% پشتون |
نوخار | دو آبے | 100% ہزارہ |
قارباغ | قارباغ | 50% ہزارہ, 50% پشتون |
راشدآن | راشدآن | 96% پشتون, 4% ہزارہ |
واغذ | واغذ | اکثریت پشتون |
زانہ خان | دادو | 100% پشتون |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑
- ↑ Ethnic demographic statistics taken from http://www.aims.org.af آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ aims.org.af (Error: unknown archive URL)
بیرونی روابط
ترمیمکابل میوزیم میں غزنی کی چند تصاویرآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ clt.astate.edu (Error: unknown archive URL)
افغانستان کے قیمتی ذخائر - نیشنل جیوگرافک
افغانستان میں تاریخ بدھ مت و اسلام