ضلع اوکاڑا
ضلع اوکاڑا پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر اوکاڑا ہے۔ لاہور سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مشہور شہروں میں اوکاڑا، رینالہ خورد، دیپالپور، شیر گڑھ، حجرہ شاہ مقیم، راجوال، منڈی احمد آباد پرانا نام منڈی ہیرہ سنگھ، حویلی لکھا، ملگدھا چوک 36/4L، گیمبر،بصیر پور، چک 37/4L جھکھڑانوالہ، بنگلہ گوگیرہ، جھکھڑ چوک 35/GD، ستگھرہ، نول پلاٹ چوچک، جبوکہ، جندراکہ، کوہلہ، بامہ بالا، مپالکے، لشاریاں، فتح پور، اختر آباد، 38/D چورستہ، چورستہ میاں خان، شاہ یکہ، موہل موسی خان، لکڑانوالا، پیپلی پہاڑ،بخشو، 38/D ینگ پور، 37/D فارم بہادر نگر، 45/GD ریتڑی وٹواں، اکبر، شیریں وٹواں، چک نمبر 40/D,چک نمبر 39/3R اور وساوے والا شامل ہیں۔ 1998ء کے مطابق اس کی آبادی کاتخمینہ 22,32,992 تھا۔ ضلع اوکاڑا میں عمومی طور پرپنجابی، سرائیکی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 4377 مربع کلومیٹر ہے۔
ضلع اوکاڑا | |
---|---|
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت | اوکاڑہ |
تقسیم اعلیٰ | ساہیوال ڈویژن |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 30°48′05″N 73°26′54″E / 30.801380555556°N 73.448333333333°E |
رقبہ | 4377 مربع کلومیٹر |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 7418888 |
درستی - ترمیم |
تاریخ
اوکاڑہ ایک سرائے سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گنجان آباد علاقہ میں بدل گیا۔ اس شہر کا نام اوکاں نامی پودے سے منسوب ہے جس کا اٹھارہویں صدی عیسوی یہاں ایک جنگل ہوا کرتا تھا۔ اس راستے سے گزرنے والے مسافر عموماً اس گھنے جنگل میں ٹھہراﺅ کرتے اور پھر اپنی منزل کی طرف نکل جاتے۔
اوکاڑا کو یہ نام ملنے سے پہلے دو دوسرے نام "اوکاں والا" اور "اوکاں اڈا" بھی حاصل رہے۔ تاریخ 1849ء میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا 1851ء میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔ 1865ء میں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (تب منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ اوکاڑہ آباد ہونے سے پہلے یہاں اوکاں کا جنگل ہوا کرتا تھا۔
دی اربن یونٹ کے تحت اوکاڑہ پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913 میں پہلے لوئر باری دوآب اور اس کے بعد پاکپتن و دیپالپور نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔ 1918ء میں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ 1925ء تک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑوں شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔
1913ء میں اوکاڑا کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر 1930ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔
1936ء میں جب اوکاڑا میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے۔ اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مل میں ملازمت کے لیے آکر شہر میں آباد ہو گئی۔
1942ء میں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی و فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی اسکول (بوائز و گرلز)، ٹیلی فون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات دستیاب ہوگئیں۔ سال 1982ء میں اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ ملا۔
تقسیم سے پہلے اوکاڑا کی آبادی کا بڑا حصہ ہندو اور سکھ آبادی پر مشتمل تھا جو پاکستان بننے کے بعد انڈیا چلی گئی اور انڈیا سے ہجرت کر کے آنیوالے مسلمانوں کو اوکاڑہ میں زمینیں الاٹ کر دی گئیں، جس سے اوکاڑہ مزید پھیلتا گیا۔ 1967ء میں یہاں فوجی چھاؤنی بنائی گئی۔
1982ء میں اوکاڑا کو ضلع کا درجہ دیا گیا تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑا پر مشتمل تھا۔ 1988ء میں بابا فرید شوگر مل لگنے سے ضلع اوکاڑہ کی معاشی ترقی کو مزید تقویت ملی بعد ازاں ستلج ٹیکسٹائل مل اور بابا فرید شوگر مل کے بند ہوجانے سے اوکاڑہ کی کمرشل ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔
ضلع اوکاڑہ کے حدود اربعہ کے لحاظ سے اوکاڑا کے مشرق میں قصور، مغرب کی طرف ساہیوال اور پاکپتن، شمال میں فیصل آباد اور شیخوپورہ سے جبکہ جنوب میں بہاولنگر واقع ہے۔ دریائی اعتبار سے اوکاڑہ میں تین دریا مشرق میں ستلج، مغرب میں راوی اور بیاس بہتے ہیں۔ بیاس اب مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے جبکہ ستلج میں سال کا زیادہ عرصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
اگست ستمبر کے مہینوں میں بارشیں ہونے اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے پر اس میں بھی طغیانی آجاتی ہے۔ رقبہ و آبادی ضلع اوکاڑا اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں اوکاڑہ، دیپالپور اور رینالہ خورد شامل ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کا رقبہ چار ہزار 377 مربع کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً بائیس لاکھ تھی جو اس وقت ایک اندازے کے مطابق بتیس لاکھ ہو چکی ہے۔ یہاں کی تین تحصیلوں میں رینالہ خورد، دیپالپور، اوکاڑہ میں پانچ ایم این اے اور دس ایم پی اے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئیں حالیہ حلقہ بندیوں کے تحت ضلع اوکاڑہ کو 140 یونین کونسلوں اور سات مونسپل کمیٹیوں (اوکاڑہ، دیپالپور، رینالہ خورد، بصیر پور، حویلی لکھا، حجرہ شاہ مقیم اور منڈی احمد آباد) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
تعلیمی لحاظ سے ضلع اوکاڑا میں بارہ ڈگری کالجز، پانچ ہائر سکینڈری اسکولز، ایک سو بتالیس سکینڈری، ایک سو اکاون مڈل اسکول، بارہ سو ستاون پرائمری اسکول جبکہ ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔
اس علاقہ میں بسنے والی مشہور ذاتوں میں سید، شیخ، جھکھڑ، چنڑ، کھوکھر، آرائیں، بودلہ، راﺅ، بھٹی، جٹ، کمیانہ، سیال، گجر، کمبوہ، بلوچ، وٹو، جوئیہ، ڈوگر اور کھرل شامل ہیں۔
اہم شخصیات میں مولانا محمد لکھوی کے بیٹے معین الدین لکھوی ہیں جو ممبر قومی اسمبلی رہے اور انھیں ستارہ امتیازسے نوازا گیا۔اوکاڑہ کے راﺅ سکندر اقبال سال 07-2002 تک وزیر دفاع رہے۔ میاں منظور وٹو سابقہ وزیر اعلی پنجاب ،میاں محمد زمان وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہے۔ اب ان کے بیٹے میاں یاور زمان صوبائی وزیر برائے آبپاشی ن لیگ کے دور میں رہے۔ اس کے علاوہ اوکاڑہ کے سید پیر صمصام شاہ بخاری وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، رانا اکرام ربانی اور اشرف خان سوہنا بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
مشہور افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر اور نقاد علی اکبر ناطق، صف اول کے افسانہ نگار افسانہ نگار سید گلزار حسنین، نامور شاعر مسعود احمد، صحافی آفتاب اقبال، جنید احمد، ادیب ظفر اقبال، شاعر اقبال صلاح الدین، پنجابی شاعر بابو راج علی اور ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ندیم احمد ندیم کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جبکہ محمد حنیف جنھوں نے اوکاڑہ پر ایک مشہور کتاب :A CASE OF EXPLODING MANGOES" لکھی، کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔
یہاں پائے جانے والے درختوں میں کیکر، اوکاں، بیری اور ونڈ پائے جاتے ہیں۔ اوکاڑہ میں آلو کی منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہیں۔اوکاڑہ میں سے گندم، مکئی، ٹماٹر، چاول، کپاس، آم اور مالٹا سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہیں۔
ایک تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند، بلوچ قبیلے رند کا سردار تھا جس نے 1518ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کی لڑائی میں انھوں نے مغل بادشاہ کا ساتھ دیا۔ 1556ء میں دہلی تخت پر بیٹھنے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر رند کو ایک بڑی جاگیر سے نوازا۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ء میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ آج بھی ستگھرہ میں موجود ہے۔
احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کے گاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو ناصرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کے لیے آمادہ بھی کیا۔اوکاڑہ کے اس سپوت کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا۔
تحصیلیں
اسے انتظامی طور پر تین تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ "صفحہ ضلع اوکاڑا في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2024ء