عبد اللہ بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(29ق.ھ / 12ھ) غزوہ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ میں شامل ہیں۔ ذو الہجرتین(ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں شامل) تھے۔ ابو محمد ان کی کنیت ہے۔ یہ عبد اللہ اکبر کے نام سے مشہور ہیں بنو مالک بن کنانہ سے تعلق تھا مدینہ منورہ میں ان کے اور فروہ بن عمرو بن ودقہ کے درمیان بھائی چارہ تھا[1] غزوہ بدر، غزوہ احد اور جملہ غزوات میں شریک رہے جنگ یمامہ میں شریک تھے۔ رسول اللہ کے ساتھ ان کا نسب فہر پر جا کر ملتا ہے ان کی والدہ ام نہیک بنت صفوان ہیں۔ انھوں نے دعا کی تھی کہاے اللہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک اپنے بند بند کو تیری راہ میں زخم رسیدہ نہ دیکھوں،جنگ یمامہ میں ان کا ہر عضو زخمی تھا، عبداللہ ابن عمر فرماتے کہ میں ان کے پاس آخری وقت پہنچا انھوں نے مجھ سے پوچھا روزہ داروں نے روزہ افطار کر لیا میں نے بتایا کہ ہو چکا کہنے لگے میرے منہ میں پانی ڈال دو جب میں ڈول لے کر پہنچا تو تو وہ اہنے آخری سانس پورے کر چکے تھے۔ 12ھ میں یمامہ میں شہید ہوئے اس وقت 41 سال عمر تھی [2]

عبد اللہ بن مخرمہ
معلومات شخصیت

نام و نسب ترمیم

عبد اللہ نام، ابو محمد کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے، عبد اللہ بن مخرمہ بن عبدالعزیٰ ابن ابی قیس بن عبدودبن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی قرشی، عامری ماں کا نام بہنانہ تھا اور قبیلہ بنو کنانہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ [3] [4]

اسلام و ہجرت ترمیم

آغازدعوت میں مشرف باسلام ہوئے ، اسلام کے بعد ہجرت حبشہ کا شرف حاصل کیا، پھر وہاں سے مدینہ آئے اور کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے یہاں اترے، آنحضرت نے ان میں اور فردہ بن عمرو بیاضی میں مواخاۃ کرادی۔ [5] ،[6]

غزوات ترمیم

مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے بدر عظمیٰ میں شریک ہوئے اوربدری ہونے کا امتیاز حاصل کیا، اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی، غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد اور غزوہ خندق وغیرہ تمام معرکوں میں آنحضرت کے ساتھ رہے۔ [7]

شہادت ترمیم

حضرت عبد اللہ کا جذبۂ شہادت اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ہر موئے بدن خوننا بہ فشانی کے لیے بے قرار رہتا تھا؛چنانچہ وہ دعا کیا کرتے تھے؛کہ خدایا تو مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا جب تک میرے جسم کا جوڑ جوڑ تیری راہ میں زخموں سے چور چور نہ ہوجائے، یہ دعا قبول ہوئی اور بہت جلد اس کا موقع مل گیا، حضرت ابوبکرؓ صدیق کے عہد خلافت میں فتنہ ارتداد کی مہم میں مجاہدانہ شریک ہو گئے اور مرتدوں کے مقابلہ میں اس بے جگری سے لڑے کہ جسم کے تمام جوڑ بند زخموں سے چور ہو گئے،رمضان کا مبارک مہینہ تھا،روزہ رکھے ہوئے تھے،عبد اللہ بن عمر غروب آفتاب کے وقت جب کہ ابن مخرمہؓ کا آفتاب عمر لب بام آچکا تھا،ان کی خبر لینے آئے انھوں نے پوچھا ابن عمرؓ کیا تم افطار کر چکے ؟ انھوں نے کہا ہاں، فرمایا میرے لیے بھی پانی لاؤ؛لیکن پانی آتے آتے ابن مخرمہ تشنہ لب حوض کوثر پر پہنچ گئے،اس وقت ان کا اکتالیسواں سال تھا۔ [8] [9] .[10]

اہل و عیال ترمیم

حضرت عبد اللہ بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں صرف ایک صاحبزادہ مساحق کا پتہ چلتا ہے ،یہ زینب بنت سراقہ کے بطن سے تھے۔ [11]

فضل و کمال ترمیم

ابن مخرمہؓ علم وعمل اورزہدوورع کے لحاظ سے ممتاز شخصیت کے مالک تھے،صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں وکان فاضلاً عابداً یعنی ابن مخرمہ ؓ فاضل اور عبادت گزار تھے۔ [12]

حوالہ جات ترمیم

  1. اسد الغابہ ،مؤلف: أبو الحسن عز الدين ابن الاثير الناشر: دار الفكر بيروت
  2. اصحاب بدر،صفحہ 104قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  3. (اسد الغابہ:3/252)
  4. الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَخْرَمَةَ (1) آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  5. (ابن سعد،جلد3،ق1:29)
  6. أسد الغابة في معرفة الصحابة - عبد الله بن مخرمة آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  7. (ابن سعد،جلد3،ق1:29)
  8. (استیعاب:1/370)
  9. الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَخْرَمَةَ (2) آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  10. الإصابة في تمييز الصحابة - عبد اللَّه بن مخرمة آرکائیو شدہ 2017-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  11. (ابن سعد،جلد3،ق1:294)
  12. (اسد الغابہ:3/353)