عبد اللہ بن مالک بن معتم عبسی، مہاجرین اولین صحابہ میں ہیں، "بنو غطفان" کی شاخ "بنو عبس" کے شرفا میں شمار ہوتا تھا، صحابہ کرام میں اپنی بہادری و شجاعت اور غزوات میں شرکت کی وجہ سے مشہور تھے۔ سنہ میں قریش کی جماعت سے مقابلہ کے ان کی قیادت میں پیغمبر اسلام محمد نے سریہ (چھوٹا دستہ) بھیجا تھا۔

عبد اللہ بن معتم عبسی

معلومات شخصیت
عملی زندگی
پیشہ اسلامی سپہ سالار و فاتح

معرکہ بویب کی قیادت اور عَلم انھیں کے ہاتھوں میں تھا، اسی طرح جنگ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کے ساتھ اگلے دائیں دستے میں موجود تھے، مدائن کی فتح میں انھیں کے اگلے دستہ میں تھے۔ انھوں نے تکریت کو فتح کیا تھا اور نینوا و موصل کی صلح کرنے والے بھی یہی تھے۔

کوفہ میں رہتے تھے، وہاں کے اشراف میں شمار ہوتا تھا۔ جنگ جمل کے موقع پر جب علی بن ابی طالب نے اہل کوفہ سے مدد کی درخواست کی تو ابو موسیٰ اشعری نے لوگوں اس اختلاف اور فتنہ میں پڑنے سے منع کیا، اسی ابن معتم جنگ جمل میں شریک نہیں ہوئے، اسی طرح جنگ صفین میں بھی دونوں فریقوں سے الگ تھے کسی کا ساتھ نہیں دیا۔

اسلام

ترمیم

عبد اللہ بن معتم نے ہجرت مدینہ سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا تھا، ان کے قبیلہ "بنو عبس" کے نو مرد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسلام قبول کیا تھا، رسول اللہ ان سب کے لیے خیر کی دعا کی اور سبھی مہاجرین میں سے تھے۔[1]

پیغمبر اسلام کے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران جب قریش کی ایک جماعت کے شام سے لوٹنے کی اطلاع پہنچی تو اس جماعت کا تعاقب کرنے کے رسول اللہ نے ایک جماعت تیار کی اور ان کا ذمہ دار عبد اللہ بن معتم ہی کو بنایا تھا، جو جھنڈا عطا کیا تھا وہ سفید رنگ کا تھا۔[2][3]

فتوحات

ترمیم

الحیرہ کی فتح

ترمیم
 
الحیرہ کی ایک عمارت کا کھنڈر

عراق میں اسلامی فتوحات کی پہلی فتحِ الحیرہ میں عبد اللہ بن معتم کا نام نمایاں ہے، معرکہ جسر سے ناکام واپس بھاگ کر آنے والوں میں سے یہ بھی تھے، اُس معرکہ میں شکست کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید غصہ اور اور غم تھا۔[4][5] چنانچہ عراق کی فتح کے لیے مثنی ابن حارثہ کی قیادت میں لشکر طے پایا، معرکہ بویب میں عبد اللہ بن معتم اور ان کی قوم نے مثنی ابن حارثہ کی قیادت میں جم کر شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا، یہ عراق اسلامی فوج کا پہلا معرکہ تھا، اس کی فتح سے ایک بڑا اثر پیدا ہوا، ابن کثیر نے اس کو جنگ یرموک سے تشبیہ دی ہے، معرکہ بویب میں اسلامی فوج کو فتح سنہ 13ھ میں رمضان میں ہوئی اور الحیرہ فتح ہوا۔[6] [7] [8]

قادسیہ کی فتح

ترمیم
 
تصوير جنگ قادسیہ کی شاہنامہ کے ایک مخطوطہ سے تصویر

مثنی ابن حارثہ کی وفات کے بعد عراق کی اسلامی فتوحات کے لیے اسلامی فوج کی قیادت سعد بن ابی وقاص ہاتھ میں آئی، چنانچہ جنگ قادسیہ میں فوج کے دائیں اگلے دستہ میں تھے۔[9] یہ جنگ سنہ 15ھ شعبان میں ہوئی اور اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو فتح ملی۔[10]

مدائن کی فتح

ترمیم
 
عراق میں کسری کے دربار کا کھنڈر، یہاں مسلمانوں نے فتح کے بعد نماز ادا کی تھی۔

قادسیہ کی فتح کے بعد عمر بن خطاب نے سعد بن ابی وقاص کو مدائن کا رخ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ انھوں نے زہرہ بن حویہ کو آگے بھیجا اور ان کے پیچھے عبد اللہ بن معتم کو بھیجا۔[11] جب مسلمانوں کا یہ لشکر "برس" نامی مقام پر پہنچا تو وہاں ایرانیوں سے جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے انھیں شکست دی، اس طرح مسلمان فتح حاصل کرتے گئے اور کسریٰ کے پایہ تخت مدائن پہنچ گئے، عبد اللہ بن معتم فوج کے اگلے دستہ میں تھے، یہاں تک کہ صفر 16ھ میں مدائن بھی فتح ہو گیا۔[12]

موصل اور تکریت کی فتح

ترمیم
 
موصل میں نینوا کی فصیل کا ایک دروازہ

16ھ میں جب سعد بن ابی وقاص نے مدائن کو فتح کر لیا، انھیں خبر پہنچی کہ موصل کے لوگ تکریت میں "انطاق" نامی ایک رومی شخص کی قیادت میں جمع ہو رہے ہیں، انھوں نے اس کی اطلاع امیر المؤمنین عمر بن خطاب کو دی، عمر فاروق نے انھیں جنگ کے لیے لشکر تیار کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ: "لشکر کا امیر عبد اللہ بن معتم عبسی کو بنایا جائے۔[13]

جمادی الاولی 16ھ میں اہل موصل سے جزیہ کی شرط پر صلح ہوئی، عبد اللہ بن معتم کو فوجی معاملات کا والی بنایا گیا اور عرفجہ بن ہرثمہ بارقی کو جزیہ وصولنے کا ذمہ دار بنایا گیا۔[14]

سنہ 18ھ یا 20ھ میں تکریت اور موصل والوں نے عہد و پیمان توڑ دیا، چنانچہ عمر بن خطاب نے عیاض بن غنم کو موصل پر فوج کشی کرنے حکم دیا، چنانچہ انھوں نے فتح کیا اور وہاں عتبہ بن فرقد سلمی کو والی بنا دیا۔[15]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الطبقات الكبرى - محمد بن سعد - ج 1 - الصفحة 295 آرکائیو شدہ 2018-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  2. الطبقات الكبرى - محمد بن سعد - ج 1 - الصفحة 296 آرکائیو شدہ 2018-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  3. "الإصابة - ابن حجر - ج 4 - الصفحة 191"۔ 2018-11-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-11
  4. تاريخ الدولة العربية الاسلامية الاولى - عصام محمد شبارو - الصفحة 75 آرکائیو شدہ 2014-10-17 بذریعہ وے بیک مشین
  5. نهاية الأرب في نهاية الأدب - النويري - ج19 -الصفحة 62 آرکائیو شدہ 2018-11-10 بذریعہ وے بیک مشین
  6. الاكتفاء - الكلاعي - ج 2 - الصفحة 465 آرکائیو شدہ 2018-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  7. البداية والنهاية - ابن كثير - المجلد 7 - الصفحة 36
  8. الدولة العربية في صدر الإسـلام 12 قبل الهجرة - 40 هـ - عبد الحكيم الكعبي - الصفحة 143 آرکائیو شدہ 2018-11-10 بذریعہ وے بیک مشین
  9. عمر بن الخطاب الفاروق - محمد رضا - الصفحة 95 آرکائیو شدہ 2018-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  10. "الخلفاء الراشدون مواقف وعبر - عبد العزيز بن عبد الله الحميدي - الصفحة 348"۔ 2018-10-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-11
  11. االفاروق - محمد رضا - الصفحة 135 آرکائیو شدہ 2018-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  12. الكامل في التاريخ - ابن الأثير - ج 2 - الصفحة 335 آرکائیو شدہ 2018-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  13. البداية والنهاية - ابن كثير - ج 7 - الصفحة 83 آرکائیو شدہ 2018-10-02 بذریعہ وے بیک مشین
  14. "أسد الغابة - ابن الأثير - ج 3 - الصفحة 263"۔ 2018-11-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-11
  15. "الكامل في التاريخ - ابن الأثير - ج 2 - الصفحة 351"۔ 2019-12-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-11