علامہ تمنا عمادی

مصنف، مترجم، سوانح نگار

علامہ تمنا عمادی مجیبی یا محمد محی الدین حیات الحق (پیدائش: 14 جون 1888ء— وفات: 27 نومبر 1972ء) شاعر، مترجم، سوانح نگار تھے۔

علامہ تمنا عمادی
معلومات شخصیت
پیدائش 14 جون 1888ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پھلواری شریف ،  پٹنہ ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 نومبر 1972ء (84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مترجم ،  سوانح نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

علامہ تمنا عمادی کی پیدائش پھلواری شریف، پٹنہ میں 14 جون 1888ء کو ہوئی۔ تاریخ پیدائش کا مادہ ’’فیروزبخت‘‘ سے مخرج ہوتا ہے۔ والدین نے نام حیات الحق رکھا تھا مگر وہ اپنے ننھیالی نام محمد محی الدین سے مشہور ہوئے اور تمنا عمادی کے نام سے شہرت پائی۔ والد شاہ نذیرالحق تھے جنھوں نے 10 مارچ 1905ء کو پھلواری شریف میں وفات پائی۔

تعلیم

ترمیم

درس نظامی کی تکمیل تمنا نے اپنے والد شاہ نذیرالحق سے کی۔ گویا عربی زبان اور فارسی زبان میں منتہی الکمال تھے۔ انگریزی زبان سے نابلد تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اولاً مدرسہ حنیفیہ، پٹنہ میں ملازمت اختیار کرلی۔ یہ مدرسہ محمدی جان بیگم تھا جسے نواب یوسف علی خان نے قائم کیا تھا۔ یہاں تمنا 1910ء سے 1918ء تک عربی زبان اور فارسی زبان کے مدرس رہے۔

بطور مدرس

ترمیم

اِس کے بعد وہ تقریباً ساڑھے تین سال سابق صدر بھارت ڈاکٹر راجندر پرشاد کے قائم کردہ وِدیا پیٹھ (بہار) میں عربی و فارسی پڑھاتے رہے۔ 1921ء میں تمنا اِس سے علاحدہ ہو گئے اور پھر کسی ادارے میں ملازمت اختیار نہ کی۔ بعد ازاں پٹنہ کے بعض مسلمان وکلا اُن سے قرآن مجید پڑھنے لگے۔ یہ لوگ کچھ مالی خدمت بھی کر دیا کرتے تھے۔ سر فخر الدین (متوفی 1933ء) فقہی معاملات میں بھی علامہ تمنا سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ جب اُن کا انتقال ہو گیا تو یہ عبد العزیز بیرسٹر (متوفی 1948ء)، وزیر تعلیم بہار کے مشیرخاص اور دستِ راست بن گئے۔ عبد العزیز صاحب بعد میں صدر اُمورِ مذہبی بن کر حیدرآباد دکن گئے تو تمنا کو بھی اپنے ہمراہ لیتے گئے۔ ریاست نظام حیدرآباد دکن سے علامہ تمنا کا ماہانہ وظیفہ 100 روپئے مقرر ہوا اور یہ انھیں ریاست حیدرآباد کے انضمام یعنی ستمبر 1948ء تک باقاعدگی سے ملتا رہا۔[1]

ٖڈھاکہ اور چاٹگام میں قیام

ترمیم

1948ء میں علامہ تمنا اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ہجرت کرکے ڈھاکہ چلے گئے۔ڈھاکہ جاتے ہوئے وہ اپنا کتاب خانہ بھی ساتھ لے گئے تھے۔ وہاں حکومت پاکستان نے انھیں رہائش کے لیے ایک وسیع مکان دیا۔ علمی حلقوں میں خاصی آؤ بھگت ہوئی۔ وہ طویل عرصے تک ریڈیو ڈھاکہ سے درس قرآن نشر کرتے رہے۔ غرض کہ معاش کے پہلو سے انھیں کوئی تشویش نہ ہوئی، بلکہ وہ خاصا خوش حال اور فارغ البال تھے۔ کئی سال بعد انھوں نے ڈھاکہ سے اپنی رہائش چاٹگام منتقل کرلی جہاں اُن کا بیٹا صاحبزادہ محمد انعام الدین رہتا تھا اور جس کا وہاں ٹھیکے کا کاروبار تھا۔

اواخر عمر

ترمیم

اُن کی بیشتر تصانیف نامکمل پڑی تھیں۔ انھوں نے اِس دوران خیال کیا کہ اُن کی تکمیل اُس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی کہ جب تک مستقل قیام کراچی میں نہ ہوجائے۔ اِس کے علاوہ اُن کی ایک آنکھ سے پانی اُترنے کا مرض شروع ہو گیا اور رفتہ رفتہ بینائی رخصت ہونے لگی۔ اِس پر انھیں آپریشن کی ضرورت تھی۔ اِس لیے چاٹگام سے کراچی چلے آئے اور ایک عزیز کے پاس قیام کیا۔ اِس اثنا میں اُن کے بیٹے محمد انعام الدین نے بھی اپنا کاروبار کراچی منتقل کر لیا۔ چنانچہ 1969ء میں علامہ تمنا اپنے بیٹے کے پاس کراچی میں رہائش پزیر ہوئے۔

وفات

ترمیم

اواخرعمر میں بینائی رخصت ہونے پر آنکھ پر عمل جراحی کروایا۔ بینائی اِس سے بحال ہو گئی مگر شومئی قسمت کہ 1972ء کے اوائل میں انھیں حلق کا سرطان لاحق ہو گیا۔ علاج معالجہ کی بے سود کوششیں کی گئیں مگر کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ کھانا پینا بالکل ترک ہو چکا تھا کیونکہ کوئی شے حلق سے نیچے نہیں اُترتی تھی۔ سیال چیزوں میں دو چار گھونٹ یخنی یا آدھی پیالی چائے اُن کی دن بھر کی خوراک رہ گئی تھی۔ اِسی مرض میں 27 نومبر 1972ء کو کراچی میں فوت ہو گئے۔[2]

تصانیف

ترمیم

علامہ تمنا کی چند مشہور تصانیف یہ ہیں:

  • مثنوی مذہب و عقل
  • مثنوی معاش و معاد
  • ایضاحِ سخن
  • رسالہ تذکیر و تانیث
  • افعالِ مرکبہ
  • تمنائے سخن
  • اعجاز القرآن

حوالہ جات

ترمیم
  1. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 2، صفحہ 92/93۔ مطبوعہ دہلی
  2. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 2، صفحہ 93۔ مطبوعہ دہلی