علم رائے شماری (انگریزی: Psephology) سیاسیات کی وہ شاخ ہے جو رائے دہندوں کو جاننے، ان کی سیاسی پسند ناپسند کو سمجھنے، حالیہ اور سابقہ ترجیحات کو جاننے اور عوام میں بے حد غور طلب اور سیاسی اعتبار سے فیصلہ کن معاملوں کی تفہیم پر مرکوز ہے۔ عملی طور پر ماہرین علم رائے شماری یہ کوشش کرتے ہیں کہ سائنسی طور پر انتخابات کا تجزیہ کریں۔

علم رائے شماری میں تاریخی طور پر ووٹروں کی معلومات کے مفروضوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں عوامی رایوں کو یک جا کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی مہم میں صرف مالیے اور اسی طرح کا شماریاتی مواد مشغول کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اصل انگریزی زبان کی اصطلاح سیفالوجی کو 1948ء مملکت متحدہ میں ڈبلیو ایف آر ہارڈی نے وضع کیا تھا جب اس کے دوست آر بی میک کیلم نے انتخابات کے مطالعے کے لیے ایک لفظ ایجاد کرنے کی گزارش کی تھی۔ اس اصطلاح کا پہلا تحریری استعمال 1952ء میں ہوا۔[1] سماجی اختیار کا نظریہ ایک مطالعے کا دوسرا میدان ہے جس میں رائے شماری کو ریاضی کے نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

بھارت میں انتخابی حکمت عملی

ترمیم

ڈاکثر ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے بھارت کے انتخابات اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح پر یہ تبصرہ کیا:

2014ء کے لوک سبھاانتخابات نے یہ ثابت کردیاکہ ایک مخصوص طریقے سے ووٹوں کو تقسیم کرکے اس کا بہت کم حصہ حاصل کرنے کے باوجود حکومت سازی کی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ 125؍کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں جہاں تقریباً 80 کروڑ رائے دہندگان موجود ہیں، ان میں سے محض 16؍کروڑ رائے دہندوں کے ووٹ حاصل کرکے بی جے پی نے 282؍حلقوں میں کامیابی حاصل کرلی جبکہ 11 کروڑ ووٹ حاصل کرنے والی کانگریس کو محض 44؍سیٹوں پر سمٹناپڑا۔اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ 3 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بی ایس پی کو ایک بھی نشست نہیں ملی جبکہ اس سے بہت کم ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کو اچھی خاصی سیٹیں مل گئیں۔یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن کا بنظر غائر تجزیہ کرناچاہیے اورملک کے تمام 525 لوک سبھا حلقوں کا الگ الگ تجزیہ کرناچاہیے۔تب یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ووٹوں کی تقسیم کا آخر یہ کون سا طریقہ کار تھا جس نے ایسا نتیجہ پیداکیا۔ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص انتخابی حکمت عملی ہی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان دنوں بی جے پی کے صدر امت شاہ اس انتخابی حکمت عملی کے سب سے بڑے ماہر ہیں جو اپنی نگرانی میں ایک ایک سیٹ کی الگ الگ حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔پہلے یہ انتخابی حکمت عملی ریاستی سطح پر وہاں کے حالات ،معاملات ،مختلف ذاتوں، قبیلوں اور مذہبی اکائیوں کی تعداد پر منحصر ہواکرتی تھی ،بعد کے زمانے میں یہ حلقہ حلقہ الگ ہونے لگیں۔اب یہ عالم ہے کہ ہر ایک حلقے کے الگ الگ بوتھ کی الگ الگ حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ملک کے ہر ایک اسمبلی حلقے میں عام طور پر 300 بوتھ ہوتے ہیں اور ہر بوتھ پر اوسطاً ایک ہزار ووٹ ہوتے ہیں،یعنی ہر ہزار ووٹ کی الگ حکمت عملی تیارکی جاتی ہے اوراس طرح انتخابات جیتے اورہارے جاتے ہیں۔جو حکمت عملی کو مضبوطی سے اختیارکرتاہے وہ کامیاب ہوجاتاہے اورجو اس میں چوک جاتاہے وہ ناکام ہوجاتاہے۔لوک سبھاانتخاب میں تو اس حد تک محنت کی گئی کہ محض 50۔50 ووٹ حاصل کرنے کے لیے الگ الگ ٹیمیں بنائی گئیں،تب کہیں جاکر 31 فیصد ووٹ بی جے پی کو مل سکے۔یہ حکمت عملی جو اب ایک سائنس کی صورت اختیار کرگئی ہے ،اسے ’سیفالوجی ‘ اور’الیکٹورل اَرِتھ میٹک‘ یعنی انتخابی ریاضی بھی کہا جاتا ہے۔اسی بنیاد پر انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے اندازے اور ہار اور جیت کی پیشین گوئیاں بھی کی جاتی ہیں۔[2]

علم رائے شماری اور سیاسی تبدیلیوں کی منظر کشی کا عمومی جائزہ

ترمیم

علم رائے شماری فعال سیاسی مہموں اور اس سے عوامی رائے دہندوں پر اثر کا بہ غور مطالعہ کرتا ہے۔ اس سے کئی بار جب رائے دہندوں سے راست بات چیت ہوئی اور گفتگو ہوئی، تو انھیں انتخابات مخصوص پارٹیوں کی جانب کامیابی کے ساتھ راغب کیا جا سکا ہے۔ اس کوشش میں جن لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہ اکثر اپنے دیگر اہل خانہ اور دوستوں کے خیالات اور ان کی آراء کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امیریکن اکنامک ریویو میں شائع جون 2018ء کے ایک مضمون کے مطابق، جسے ہارورڈ بزنس اسکول کے اسسٹنٹ پروفیسر وینسنٹ پونس نے لکھا تھا، یہ بیان کیا گیا ہے کیسے فرانس کے 2012ء کے صدارتی انتخابات میں بر سر اقتدار نکولس سرکوزی کے خلاف فرانسوا اولاند نے گھر گھر کی تشہیری مہم چلائی تھی اور کس طرح اس کی اثر انگیزی دیکھی گئی تھی۔ پونس کے مطابق اس مقالے میں "اولین تخمینہ ہے کہ کیسے گھر گھر تشہیر حقیقی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوئے تھے۔"[3]

تاہم علم رائے شماری کے مطابق یہ تکنیک ہر بار کار گر یا کامیاب نہیں ہوتی۔ اس کا ثبوت بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں بی جے پی مخالف عوامی لہر ایک بڑا چیلنج تھی۔ 2018ء میں ریاست میں انتخابات ہونے والے تھے۔ ایسے میں اس پر کچھ نیا کرنے کا دباؤ بھی تھا۔ بی جے پی سیاسی مہمات اور یاتراؤں کے لیے تو پہلے سے ہی جانی جاتی تھی لیکن ادھر وہ انتخابی جملوں ، نعروں اور شان و شوکت کی تقاریب میں بھی ماہر ہو گئی تھی۔ انتخابی سال کے دوران مدھیہ پردیش میں بی جے پی اپنی اسی خصوصیت کا بھرپور مظاہرہ کررہی تھی جس سے انتخابی ماحول اور رجحان کو بدلا جا سکے۔اس کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کے قریب ڈھائی مہینے کے ’جن آشرواد یاترا‘ کے بعد پھر ’’بھوِش کا سندیش، خوش حال مدھیہ پردیش ‘‘ مشن کی شروعات کی تھی۔ 21 اکتوبر سے شروع کیے گئے اس مشن کے تحت بی جے پی ریاست کے عوام سے نئے آئیڈیا مانگ رہی تھی جس سے ریاست کی خوش حالی کا نقشہ بنایا جاسکے۔ 5 نومبر تک چلنے والے اس مشن کی شروعات کرتے ہوئے وزیر علیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے کہا کہ ریاست کی خوش حالی کا روڈ میپ میں اکیلا نہیں ساڑھے سات کروڑ لوگ مل کر بنائیں گے۔ اس کے لیے ہر محلے اور کوچے میں واقع امیر و غریب افراد کے گھر گھر تک تشہری اور رابطہ اور گفتگو مہم کا سہارا لیا گیا۔ عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اس دوران عوام سے جو بھی اچھے سجھاؤ ملیں گے، ان کی بنیاد پر ہم روڈ میپ تیار کریں گے اور اگلے 5 سالوں میں ریاست کو خوش حال مدھیہ پردیش بنائیں گے۔[4] لیکن اس بات کو ماہرین علم رائے شماری اور عام مشاہدے میں دیکھا جا چکا ہے کہ یہ ساری کوششیں ناکام ہو گئی اور عوام میں وسیع پیمانے پر موجود ناراضی کی وجہ سے مدھیہ پریش کی ریاست میں کمل ناتھ کی زیر قیادت انڈین نیشنل کانگریس بر سر اقتدار ہو گئی اور شیو راج سنگھ چوہان کو اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم