عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد

عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک

8 مارچ 2022ء کو پاکستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی دائر کی۔ پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جس میں عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تحت اتحاد میں متحد حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم پر خراب حکمرانی اور معیشت کی بدانتظامی کا الزام لگایا۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں کیا گیا تھا۔[1][2][3]

حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق قائد حزب اختلاف، شہباز شریف نے کہا کہ یہ اس لیے پیش کیا گیا کیوں کہ عمران خان کے گذشتہ 4 سالوں میں منتخب حکومت نے معاشی اور سماجی لحاظ سے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔[4]

حکومت نے جواب میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر بین الاقوامی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا۔ [5]

6 مارچ 2022ء کو وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے علاقے میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن سے سوال کیا تھا کہ ’کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ میں ان (اپوزیشن) کے ساتھ کیا کروں گا، اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو؟ [6]

حکومت نے آئین پاکستان کی شق 63-اے کی قانونی وضاحت کے لیے عدالت عظمیٰ پاکستان میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جو پارلیمان میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کا پابند ہے۔ ریفرنس میں حکومت نے عدالت عظمیٰ سے چار سوالات پوچھے۔ [7]

پاکستان کے آئین کی شق 58 کے تحت اگر قومی اسمبلی کے 172 ارکان کی تعداد عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیتی ہے تو وزیر اعظم عہدہ چھوڑ دیتا ہے۔ [8] ووٹ کامیاب ہونے کی صورت میں عمران خان کی کابینہ بھی تحلیل ہو جائے گی۔ [9]

تحریک عدم اعتماد کے وقت، وزیر اعظم عمران خان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکز میں مخلوط حکومت تھی، [10] خزانے کی نشستوں پر 176 ارکان تھے، جب کہ حزب اختلاف کی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 162 ہے۔ وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے کل ووٹوں کی تعداد 172 ہے۔ ایک بار جب تحریک عدم اعتماد جمع ہو جاتی ہے، سپیکر کو دو ہفتوں کے اندر اندر حکم کے لیے ایوان کو بلانا چاہیے اور ایوان کے بلائے جانے کے بعد ایک ہفتے کے اندر تحریک پر ووٹنگ ہونی چاہیے۔ [9]

خط زمانی

ترمیم
  • 25 مارچ 2022ء: پارلیمان کا اجلاس شروع ہوا اور فوت شدہ پارلیمان اراکین کے لیے دعا کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی کنونشن کی روشنی میں اجلاس فوری طور پر 28 مارچ 2022ء تک ملتوی کر دیا۔[11]
  • 28 مارچ 2022ء: قرارداد پیش کرنے کے حق میں 161 قانون سازوں کے ووٹ دینے کے بعد، قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس 31 مارچ کی شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا۔[12]
  • 31 مارچ 2022ء: خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے چند منٹ بعد 3 اپریل 2022ء کو صبح 11:30 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔[13]
  • 3 اپریل 2022ء: قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5 کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔[14]
  • 7 اپریل 2022ء: قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کی کوشش کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔[15] اس بات پر اتفاق ہے کہ 9 اپریل کو صبح 10:30 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر عدم اعتماد کا ووٹ لیا جائے گا۔[15]
  • 9 اپریل 2022ء: پاکستانی سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی گئی۔[16]
  • 9 اپریل 2022ء: آدھی رات سے چند منٹ پہلے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے اپنے عہدوں سے استعفا دے دیا۔[17]
  • 9 اپریل 2022ء: آدھی رات سے چند لمحے قبل، ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی۔[18][19]
  • 9 اپریل 2022ء: آدھی رات کو، قومی اسمبلی کا اجلاس 10 اپریل 2022ء کی صبح 12:02 پر ملتوی کر دیا گیا۔[20]
  • 10 اپریل 2022ء: قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے منظور، عمران خان ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے۔[21][22]

ما بعد

ترمیم

نئے وزیر اعظم کا انتخاب

ترمیم

11 اپریل 2022ء کو، نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا۔ سبکدوش ہونے والی حکمران جماعت پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ تاہم، ووٹنگ سے چند لمحے قبل، پارٹی نے اسمبلی سے بڑے پیمانے پر واک آؤٹ کیا جس پر قریشی نے دعویٰ کیا کہ یہ 'درآمد شدہ حکومت' ہے۔ شہباز شریف، سابق وزیر اعلی پنجاب اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی، بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔[23]

2018→ 11 اپریل 2022ء ←2023 (یا اس سے پہلے)
امیدوار جماعت حاصل کردہ ووٹ
مطلوبہ اکثریت → 342 میں سے 172
شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ ن 174  Y
شاہ محمود قریشی پاکستان تحریک انصاف 0  N
ووٹ نہیں دیئے 167

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Opposition submits no-confidence motion against PM Imran Khan"۔ www.geo.tv 
  2. Nadir Guramani | Sanaullah Khan (مارچ 8, 2022)۔ "Opposition submits no-trust motion against PM Imran"۔ DAWN.COM 
  3. "Opp submits no-confidence motion against PM Imran in NA"۔ The Express Tribune۔ مارچ 8, 2022 
  4. "No-trust move submitted for Pakistan's betterment: Shahbaz" 
  5. "'One-million gathering to be referendum against opposition'"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2022 
  6. "'Ready for what I will do?' PM Imran warns opposition of consequences if no-confidence move fails"۔ 6 مارچ 2022 
  7. ٹیم آئی بی سی اردو نیوز (2022-03-21)۔ "آرٹیکل 63 اے : حکومت کے سپریم کورٹ سے 4 سوال"۔ ۔آئی بی سی اردو (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  8. "Pakistan's No-Confidence Vote Should Respect Democratic Process"۔ Human Rights Watch (بزبان انگریزی)۔ 16 مارچ 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2022 
  9. ^ ا ب Sana Ali (8 مارچ 2022)۔ "Explainer: How does a no-confidence motion work?"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2022 
  10. Gul Bukhari۔ "Imran Khan and the military: Allies today, foes tomorrow?"۔ www.aljazeera.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2022 
  11. Dawn com | Nadir Gurmani (25 مارچ 2022)۔ "NA session adjourned without tabling of no-trust motion against PM"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2022 
  12. "NA session adjourned till مارچ 31 after tabling of no-confidence resolution against PM Imran"۔ Dawn۔ 28 مارچ 2022 
  13. "No-trust motion: NA session adjourned till Sunday after opposition's protest"۔ Dawn۔ مارچ 31, 2022 
  14. "NA speaker dismisses no-trust move against PM Imran, terms it contradictory to Article 5"۔ Dawn۔ اپریل 3, 2022 
  15. ^ ا ب Haseeb Bhatti (اپریل 7, 2022)۔ "Supreme Court restores National Assembly, orders no-confidence vote to be held on Saturday"۔ Dawn 
  16. Dawn com | Fahad Chaudhry (2022-04-09)۔ "No-confidence vote: Speaker adjourns session yet again as opposition clamours for voting to begin"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  17. "Pak political crisis LIVE updates: Pak National Assembly speaker Asad Qaiser, Dy speaker Qasim Suri resign"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 2022-04-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  18. "Pak political crisis LIVE updates: Pak National Assembly speaker Asad Qaiser, Dy speaker Qasim Suri resign"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 2022-04-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  19. Dawn com | Fahad Chaudhry (2022-04-09)۔ "No-confidence vote: NA Speaker Asad Qaiser resigns, Ayaz Sadiq begins voting process"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  20. Dawn com | Fahad Chaudhry (2022-04-09)۔ "No-confidence vote: NA Speaker Asad Qaiser resigns, Ayaz Sadiq begins voting process"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  21. "LIVE: Pak crisis: Parliament begins voting on no-confidence motion against PM Imran Khan after speaker resigns"۔ WION (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  22. Dawn com | Fahad Chaudhry (2022-04-09)۔ "Imran Khan loses no-trust vote, prime ministerial term set for unceremonious end"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2022 
  23. "Pakistan assembly elects Shehbaz Sharif as new prime minister"۔ The Guardian۔ 11 April 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2022