عمران خان کی کابینہ
عمران خان کی کابینہ عمران خان کی حکومت ہے جو ان کے وزیر اعظم پاکستان منتخب ہونے کے بعد بنی۔ 20 اگست 2018ء کو عمران خان کی ابتدائی 16 رکنی کابینہ نے حلف اٹھایا تھا جبکہ اسی دن 5 مشیروں کے بھی اعلان نامے جاری کیے گئی، جس کے بعد یہ تعداد 21 ہو گئی تھی۔[1] بعد ازاں شہریار خان آفریدی کو شامل کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ کا قلمدان سونپا گیا۔[2] اور 6 نئے وزرا اور وزرائے مملکت کے بعد وفاقی کابینہ کی کُل تعداد 28 ہو گئی۔
عمران خان کی وزارت | |
---|---|
پاکستان کی | |
2018-موجود | |
عمران خان کی بطور وزیر اعظم باضابطہ تصویر (2018ء) | |
تاریخ تشکیل | 20 اگست 2018ء |
افراد اور تنظیمیں | |
سربراہ حکومت | عمران خان |
صدر ریاست | عارف علوی (2018ء - تاحال) ممنون حسین (2013ء - 2018ء) |
رکن جماعت | پاکستان تحریک انصاف اتحادی جماعتیں: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بلوچستان عوامی پارٹی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس عوامی مسلم لیگ پاکستان بلوچستان نیشنل پارٹی پاکستان مسلم لیگ جمہوری وطن پارٹی آزاد |
مقننہ میں | کثیر الجماعتی اتحاد |
حزب اختلاف | پاکستان مسلم لیگ |
قائد حزب اختلاف | شہباز شریف |
تاریخ | |
انتخابات | 2018ء |
مقننہ کی مدت | پندرہوں مجلس شوریٰ پاکستان |
پیشرو | ناصر الملک کی نگراں وزارت |
کابینہ
نام | جماعت | عہدہ | قلمدان سنبھالا |
---|---|---|---|
شیخ رشید احمد | پاکستان تحریک انصاف | وزارت داخلہ | 28 اگست 2018 |
حماد اظہر | پاکستان تحریک انصاف | محصولات | 11 ستمبر 2018 |
مراد سعید | پاکستان تحریک انصاف | ریاستی و سرحدی امور | 11 ستمبر 2018 |
محمد شبیر علی | پاکستان تحریک انصاف | اعلان ہوگا | 11 ستمبر 2018 |
نام | الحاق | عہدہ | مدت |
---|---|---|---|
محمد شہزاد ارباب | پاکستان تحریک انصاف، ٹیکنوکریٹ | اسٹیبلشمنٹ ڈویژن | 20 اگست 2018 |
عبد الرزاق داؤد | ٹیکنوکریٹ | تجارت، ٹیکسٹائل، صنعتی پیداوار | 20 اگست 2018 |
ملک امین اسلم | پاکستان تحریک انصاف، ٹیکنوکریٹ | ماحولیاتی تبدیلی | 20 اگست 2018 |
عشرت حسین | ٹیکنوکریٹ | ادارہ جاتی اصلاحات و کفایت شعاری | 20 اگست 2018 |
بابر اعوان | پاکستان تحریک انصاف | پارلیمانی امور | 20 اگست 2018 – 4 ستمبر 2018 |
جماعت | نمبر شمار |
---|---|
پاکستان تحریک انصاف | 18
|
متحدہ قومی موومنٹ | 2
|
بلوچستان عوامی پارٹی | 1
|
پاکستان مسلم لیگ | 1
|
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس | 1
|
عوامی مسلم لیگ | 1
|
مشیر | 4
|
تجزیہ
عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا اعلان کیا، انھوں نے داخلہ اور توانائی کی وزارتیں خود رکھیں۔ وزرا کے چناؤ کے معاملے میں عمران خان پر تنقید کی گئی کہ انھوں نے انتخابات تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعروں سے جیتا مگر ان کے منتخب کیے گئے بیشتر وزرا پرویز مشرف اور کچھ پاکستان پیپلز پارٹی (جو مشرف کے بعد حکومت میں آئی تھی) کے دورِ حکومت میں بھی وزیر تھے۔[3][4] مختصر یہ کہ انھوں نے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے لگائے مگر وزرا پرانے ہی رکھے، سوائے چند ایک کے۔
کابینہ کا سب سے اہم وزارت خزانہ کا قلمدان پاکستان تحریک انصاف کے نظریاتی رکن اسد عمر کو سونپا گیا۔ دوسرا اہم وزارت خارجہ کا قلمدان عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو سونپا، اس سے قبل وہ مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ وزارت دفاع کا قلمدان خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے حصے میں آیا۔ وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان فواد چودھری کو سونپا گیا۔ انصاف و قانون کی اہم وزارت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر فروغ نسیم کو سونپی گئی، ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ شیخ رشید احمد کو ریلوے کی وزارت ملی، وہ مشرف دور میں بھی وزیر ریلوے کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ زبیدہ جلال خان کو عمران خان نے دفاعی پیداوار کی وزارت سونپی، ان کا تعلق بلوچستان کے علاقے چاغی سے ہے۔ فہمیدہ مرزا کو بین الصوبائی رابطے کی وزارت ملی، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔ انسانی حقوق کی وزارت شیریں مزاری کو ملی۔ شفقت محمود کو عمران خان نے تعلیم اور قومی ورثے کی وزارت سونپی۔ خالد مقبول صدیقی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کی وزارت ملی، ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ عامر محمود کیانی کو وزارت صحت قلمدان سونپا گیا۔ طارق بشیر چیمہ کو ریاستی و سرحدی امور کی وزارت دی گئی، وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی ایک وزیر رہے۔ وزارت مذہبی امور کا قلمدان نور الحق قادری کے حصہ میں آیا، وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے زکوۃ و عشر تھے۔ غلام سرور خان کو پیٹرولیم کی وزارت ملی، وہ مشرف دور میں بھی ایک وزیر رہ چکے ہیں۔ خسرو بختیار کو آبی وسائل کی وزارت ملی، وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے دورِ حکومت میں وزیر خارجہ امور بھی رہ چکے ہیں۔[5] بابر اعوان بھی پی پی پی حکومت میں وزیر قانون و انصاف تھے۔[6] مشرف کی حکومت میں ملک امین اسلم اسی عہدے پر فائز تھے۔[7] عبد الرزاق داؤد بھی مشرف دور میں وزیر تجارت تھے۔[8] مشرف نے اپنے عہد میں عشرت حسین کو گورنر بینک دولت پاکستان مقرر کیا تھا۔[9]
حوالہ جات
- ↑ "پاکستان کی نئی وفاقی کابینہ کے 16 وزیروں نے حلف اٹھا لیا"۔ 20 اگست 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2018
- ↑ "شہریار آفریدی نے وزیر مملکت برائے داخلہ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا"۔ جیو نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2018
- ↑ "PM Imran Khan's first cabinet anything but 'Naya Pakistan' - Pakistan Today"۔ www.pakistantoday.com.pk۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2018
- ↑ ڈان (18 اگست 2018)۔ "PM Imran Khan finalises names of 21-member cabinet"۔ dawn.com۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2018
- ↑ فراز ہاشمی (21 اگست 2018)۔ "عمران کی کابینہ میں تبدیلی کا عنصر ناپید"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2018
- ↑ "ڈاکٹر بابر اعوان"۔ پاکستان ہیرالڈ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2013
- ↑ "PTI fields Pervez Musharraf's loyalists of the past"۔ www.thenews.com.pk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2018
- ↑ "Dawood calls for lasting solution to debt problem"۔ ڈان (بزبان انگریزی)۔ 11 نومبر 2001۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2017
- ↑ "Reformer-in-chief: In conversation with Dr Ishrat Husain"۔ ہیرالڈ میگزین۔ 2016-06-21۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2017