حنظلہ بن ابی عامر
حنظلہ بن ابی عامر انصاری جلیل القدر صحابی رسول اصحاب صفہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔غسیل الملائکہ شہید غزوہ احد ہیں۔
حنظلہ بن ابی عامر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | 23 مارچ 625ء جبل احد |
وجہ وفات | لڑائی میں مارا گیا |
قاتل | ابو سفیان بن حرب |
اولاد | عبد اللہ بن حنظلہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمحافظ ابوموسی محمد بن المثنیٰ اور علامہ ابونعیم اصبہانی نے حنظلہ بن ابی عامر کو صفہ کے طالب علموں میں سے شمار کیا ہے ۔[1]حنظلہ کاغسیل الملائکہ لقب ہے ۔ ان کا باپ ابوعامر عمرو بن صیفی ہے حنظلہ کی رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کی بیٹی ’’جمیلہ‘‘ سے شادی ہوئی، ان کی رخصتی اس رات ہوئی جس کی صبح مسلمانوں کو غزوۂ احد کے لیے نکلناتھا۔ حنظلہ اور عبداللہ بن عبداللہ بن اُبی بن سلول دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے کافر، منافق باپ کے قتل کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی۔ آپ نے دونوں کو اس سے منع فرمادیا۔ [2] ان کا نسب حنظلہ بن ابی عامر الراہب عمرو بن صیفی بن زید بن امیہ بن ضیعہ ہے۔جب کہ بعض اہل علم نے آپ کا نام و نسب یوں بیان کیا ہے: حنظلہ بن عمرو ابی عامر الراہب بن صیفی بن نعمان بن مالک بن امیہ بن ضبیعہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس بن حارثہ۔ آپ انصار کے اوس قبیلے سے ہیں۔ آپ کا والد عمر و بن صیفی، مدینہ منورہ میں راہب کی حیثیت سے معروف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم ﷺ کو جس منصب، مرتبے اور اعزازات سے نوازا تھا۔ حنظلہ رضی اللہ عنہ کے والد ابو عامر صیفی اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ابن سلول کو اس کی وجہ سے آپ سے از حد بغض تھا۔ عبد اللہ بن ابی تو بظاہر ایمان لے آیا البتہ اس نے اپنے نفاق کو پوشیدہ رکھا۔ جب کہ آپ کا والد ابو عامر صیفی مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلاگیا اور غزوۂ احد کے موقع پر وہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شرکت کے لیے کفار قریش کا ہم نوابن کر آیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے“ فاسق ابو عامر ”قرار دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں مکہ مکرمہ فتح کرایا تو یہ وہاں سے راہِ فرار اختیار کر کے سر زمین روم کی طرف جا کر ہر قل سے جا ملا۔ اور کفر کی حالت میں مر گیا۔
غسیل الملائکہ
ترمیمحنظلہ نے غزوہ احد کے لیے روانگی سے قبل اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی کہ اچانک روانگی کا اعلان ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی تعمیل اورشوقِ جہاد کی سر شادی میں انھیں غسل کا خیال تک نہ رہا۔ جب آپ شہادت سے سرفراز ہو چکے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولِ اکرم کو اطلاع دی گئی کہ حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دے دیا ہے۔عروہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی زوجہ سے دریافت کیا کہ غزوہ کے لیے آتے وقت حنظلہ کس حالت میں تھے تو انھوں نے بتلایا کہ وہ جنبی تھے۔حنظلہ جلدی سے ہتھیار سے لیس ہوکر اسی حالت میں تیزی کے ساتھ میدانِ جنگ کی طرف بڑھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جنگ کی صف بندی فرما رہے ہیں ، جب گھمسان کی جنگ شروع ہوئی تو آپ کا ابوسفیان سے سامنا ہو گیا، آپ نے اس کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ کے گھٹنے پرزوردار وار کیا جس سے ابوسفیان نیچے آگرا اور چیخنے چلانے لگا، اے قریش کی جماعت ! میں ابوسفیان ہوں ! میری مددکو دوڑو، دیکھو! حنظلہ بن ابی عامر مجھے قتل کر دے گا۔ ہرایک کو اپنی فکرتھی، کسی نے بھی اس کی آواز پرکان نہ دھرا ، البتہ اسود بن شعوب یاشداد بن اسود اس کی مدد کے لیے دوڑا اور پیچھے سے آپ پر نیزہ سے وار کیا، اسی وقت شہید ہو گئے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے فرمایا: تمھارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے آسمان اور زمین کے درمیان میں چاندی کی طشت میں رکھ کر بادل کے پانی سے غسل دے رہے ہیں ۔ ابو اسید ساعدی فرماتے ہیں ! ہم لوگ ان کی نعشِ مبارک کے پاس گئے تو دیکھا کہ واقعی ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان کے گھر تحقیق کرو کہ یہ خاص معاملہ ان کے ساتھ کیوں ہوا؟ ان کی بیوی محترمہ نے جواب دیاکہ جس وقت جہاد کا اعلان ہوا، وہ جنبی اور ناپاکی کی حالت میں تھے اور اسی حالت میں میدانِ جہاد کے لیے نکل پڑے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اشاد فرمایا: ہاں ! اسی وجہ سے فرشتوں کی جماعت انھیں غسل دے رہی ہے ۔ [4] [5]
اولاد
ترمیمحضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک فرزند تھے،جن کی آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت سات سال کی عمر تھی، سن شعور کو پہنچ کر باپ کے خلف الرشید ثابت ہوئے یزید بن معاویہؓ کی شرمناک حرکتوں سے بیزار ہوکر نقضِ بیعت کی اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آستانہ خلافت پر سرِ نیاز خم کیا، شام سے فوجیں آئیں،جنھوں نے مدنیۃ الرسول میں حرہ کا خونین منظر رونما کیا، حضرت عبد اللہ ؓ نے جرأت کرکے تمام مدینہ کو ابھارا اورخود سپہ سالار بن کر میدان میں نکلے، انصار کثرت سے شہید ہوئے،حضرت عبد اللہؓ بن زبیر نے یکے بعد دیگرے اپنے آٹھ بیٹوں کو آگے بڑھایا ،سب قتل ہوئے اور وہ اپنی آنکھوں سے یہ درد انگیز منظر دیکھتے رہے ،آخر میں خود بھی مقابلہ کے لیے بڑھے ، جس میں وہ درائے خونی ملبوس بدن تھی،جس کو ان کے پدر بزرگوار جنگ اُحد میں اوڑھ چکے تھے ،یہ واقعہ روح فرسا ذی الحجہ 63ھ میں پیش آیا۔ [6]
اخلاق
ترمیماخلاق و عادات کی عظمت وبلندی اس سے ظاہر ہے کہ "پدر فاسق" کا فرزند تقی اپنی قوم کے ناصیہ کمال پر غرہ عظمت بن کر چمکا ، قبیلہ اوس ہمیشہ ان کے وجود باجود پر فخر کرتا تھا۔ ایک مرتبہ انصار کے دونوں قبیلے اپنے فضائل فخریہ بیان کر رہے تھے،فریقین نے اس موقع پر اپنے اپنے عظیم المرتبت اصحاب کو پیش کیا تھا،جن میں سے سب سے پہلے حضرت حنظلہؓ بن ابی عامر تھے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ حلیۃ الأولیاء: 1/357
- ↑ المغازي: 1/ 274
- ↑ الاستیعاب : 1/423
- ↑ صحیح بخاري: 2/ 952، حدیث نمبر: 6431
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة - حنظلة بن أبي عامر آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ الإصابة في تمييز الصحابة - حنظلة بن أبي عامر آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]