فتاویٰ رضویہ
اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّۃ فِی الْفَتَاوی الرّضْوِیَّۃِ، جو فتاویٰ رضویہ کے نام سے معروف ہے، امام احمد رضا خان کے فقہی فتاویٰ کا ایک مجموعہ ہے۔ اسے فقہِ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج و ترتیب کے بعد یہ مجموعہ 33 جلدوں میں شائع ہوا۔[1]
![]() رضا فاؤنڈیشن، لاہور ![]() مکتبہ غوثیہ: کراچی، جلد 1 | |
مصنف | امام احمد رضا خان |
---|---|
زبان | اردو |
صنف | فقہ |
اشاعت | 1911 |
ناشر | رضا فاؤنڈیشن، لاہور (جدید طباعت) |
طرز طباعت | پرنٹ (مجلد) سافٹ وئير |
صفحات | 22,000 |
آئی ایس بی این | 2-7451-7204-2 |
جلدیں | 30 |
خصوصیات
ترمیمفتاویٰ رضویہ ایک عظیم علمی ذخیرہ ہے جو ضخامت، اعلیٰ تحقیق، فقہی و اعتقادی استناد، متعدّد علوم کا احاطہ، دلائل کی فراوانی اور زبان و اسلوب کی انفرادیت جیسے بے شمار اوصاف کا حامل ہے۔[2]
- ضخامت۔ جدید تخریج کے بعد 30 جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ تقریباً 22000 صفحات،تقریباً 7000سوالات و جوابات اورتقریباً 200 تحقیقی رسائل کا مجموعہ ہے، جبکہ ہزاروں مسائل ضمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔
- خطبہ بے مثال۔ فتاویٰ رضویہ کے ابتدائی خطبہ میں احمد رضا خان نے 90 اسمائے ائمہ و کتبِ فقہ کو بطورِ براعتِ اِستہلال استعمال کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لَڑی میں پرویا کہ اللہ پاک کی حمد و ثنا بھی ہو گئی اور ان اسمائے مقدّسہ سے تبرّک بھی حاصل ہو گیا۔
- اعلیٰ تحقیق۔ احمد رضا خان کسی مسئلہ کی تحقیق میں پہلے لغوی معنی، اصطلاحی تعریف، تقسیم، پھر بحث سے متعلق قسم کا تعین اور پھر اس کا حکمِ شرعی بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد قرآن، حدیث، اجماع، اختلاف کی صورت میں مذاہبِ ائمہ اور آخر میں فقہِ حنفی کے مطابق اقوالِ علما و فقہا ذکر کرتے ہیں۔
- مرجع عوام و علما۔ سائلین میں عوامُ الناس کے ساتھ علما، محدثین و فقہا شامل تھے، جو پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے احمد رضا خان کی طرف رجوع کرتے۔
- عقائدِ اہلِ سنّت کا دفاع۔ فقہی تحقیقات کے ساتھ ساتھ فتاویٰ رضویہ میں عقائدِ اہلِ سنّت کے دفاع پر مبنی کئی رسائل بھی شامل ہیں۔
- مُعتمَد عَلَیہ فتاویٰ۔ یہ فقہِ حنفی کا مستند فتاویٰ مجموعہ ہے، جس سے علما و مفتیان کرام فتویٰ دینے میں رجوع کرتے ہیں۔
- متعدّد علوم کا جامع۔ یہ کتاب فقہ کے علاوہ دیگر بیسیوں علوم جیسے حدیث، تفسیر، علمُ الکلام، سائنس، توقیت، ریاضی، منطق، فلسفہ وغیرہ پر بھی مشتمل ہے۔
- سائنسی تحقیق سے مزین۔ یہ کتاب سائنسی بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ اس میں بڑے بڑے سائنسدانوں — دیموقراطیس، بطلمیوس، ابن سینا، نصیر الدین طوسی، کیپلر، ولیم ہرشیل، نیوٹن، گلیلیو، آئن اسٹائن، البرٹ ایف پورٹا — کے افکار کا علمی رد کیا گیا (جسے یونیورسٹی آف مشی گن نے تسلیم کیا[3])، جبکہ ارشمیدس، خوارزمی، کندی، غزالی، رازی، البیرونی، ابن الہیثم، عمر خیام، جے جے ٹامس کے سائنسی افکار کی تائید کی گئی۔[4] اس میں پانی، بخارات، برف (دیکھیے فتاویٰ رضویہ: جلد 1، صفحہ 547)، مرجان کو پتھر تسلیم کرنے کی تحقیق (دیکھیے فتاویٰ رضویہ: جلد 3، باب التیمم، صفحہ 686)[5]، نظریۂ حرکتِ زمین، جو فیثاغورث، کوپرنیکس اور آئن اسٹائن سے منسوب ہے، کا عقلی و نقلی رد، نیز آواز، فونوگراف اور قراءتِ قرآن کے سائنسی پہلو (جلد 23) پر تحقیق شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس میں بھرپور سائنسی تحقیقی مواد جگہ بہ جگہ موجود ہے۔
- دلائل کے انبار۔ یہ کتاب دلائل سے پُر ہے۔ ایک مشت داڑھی کا واجب ہونا ثابت کیا گیا 18 آیات، 72 احادیث اور 60 اقوالِ علما کے ذریعے ۔ حرمت سجدہ تعظیمی پر 70 صفحات پر مشتمل فتویٰ ہے جس میں 40 احادیث اور 150 فقہی و فتاوی مصادر کے حوالے ہیں۔[6] سماع موتی پر 149 صفحات کا فتویٰ ہے جس میں 60 احادیث اور 300 اقوالِ علما شامل ہیں۔[6] جمع الصلاتین پر 114 صفحات پر مشتمل فتویٰ میں 80 احادیث اور سینکڑوں حوالے موجود ہیں۔[6] حتیٰ کہ اس میں موجود 15 صفحات پر مشتمل مختصر ترین رسالہ بنام ”اَلتَّحْبِیْر بِبَابِ التَّدْبِیْر“ بھی 21آیات قرآنی، 40احادیث نبوی اورکثیر نصوص و جزئیات سے معمور ہے۔
- جواب بمطابق سوال۔ سائل کا سوال جس زبان میں ہو، جواب بھی اسی زبان میں دیا گیا ہے۔
- تاریخی نام۔ فتاویٰ رضویہ میں کئی رسائل کے نام ایسے تاریخی انداز میں رکھے گئے ہیں جن سے ان کا سنِّ تحریر اخذ کیا جا سکتا ہے۔[7]
- معاشرتی رسم و رواج کی رعایت۔ اس میں معاشرتی ضرورتوں اور عرف کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ مسلمان آسانی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کر سکے۔[8]
- فتنہ و فساد کا تدارک۔ اس میں فتویٰ دیتے وقت اس بات پر زور ہے کہ فرائض کی ادائیگی، محرمات سے اجتناب اور فتنوں سے بچاؤ کو ترجیح دی جائے۔[8]
- رسائل کا اضافہ۔ فتاویٰ رضویہ کی کُل 30 جلدیں ہیں اور ہر جلد کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر ایک جلد میں کچھ رسائل بھی شامل ہیں، جس کی نظیر فتاویٰ کی دوسری کتابوں میں کم ملتی ہے۔[9][10]
موضوعات
ترمیمعنوان | جواباتِ اسئلہ | رسائل | سنینِ اشاعت (جدید) | صفحات | |
---|---|---|---|---|---|
فتاویٰ رضویہ: جلد 1 | کتاب الطہارۃ (حصہ اول) | 22 | 11 | 1990 مارچ / 1410 شعبان المعظم | 838 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 2 | کتاب الطہارۃ (حصہ دوم) | 33 | 7 | 1991 نومبر / 1412 ربیع الثانی | 710 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 3 | کتاب الطہارۃ (حصہ اول) | 59 | 6 | 1992 فروری / 1412 شعبان المعظم | 756 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 4 | کتاب الطہارۃ (حصہ دوم) | 132 | 5 | 1993 جنوری / 1413 رجب المرجب | 760 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 5 | کتاب الصّلوٰۃ (حصہ اول) | 140 | 6 | 1993 ستمبر / 1414 ربیع الاوّل | 692 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 6 | کتاب الصّلوٰۃ (حصہ دوم) | 457 | 4 | 1994 اگست / 1415 ربیع الاوّل | 736 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 7 | کتاب الصّلوٰۃ (حصہ سوم) | 269 | 7 | 1994 دسمبر / 1415 رجب المرجب | 720 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 8 | کتاب الصّلوٰۃ (حصہ چہارم) | 337 | 6 | 1995 جون / 1416 محرم الحرام | 664 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 9 | کتاب الجنائز | 273 | 13 | 1996 اپریل / 1416 ذیقعدہ | 946 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 10 | کتاب الزکوٰۃ | 316 | 16 | 1996 اگست / 1417 ربیع الاوّل | 832 |
کتاب الصوم | |||||
کتاب الحج | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 11 | کتاب النکاح (حصہ اول) | 459 | 6 | 1997 مئی / 1418 محرم الحرام | 736 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 12 | کتاب النکاح (حصہ دوم) | 328 | 3 | 1997 نومبر / 1418 رجب المرجب | 688 |
کتاب الطلاق (حصہ اول) | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 13 | کتاب الطلاق (حصہ دوم) | 293 | 2 | 1998 مارچ / 1418 ذیقعدہ | 688 |
کتاب الایمان | |||||
کتاب الحدود و التعزیر | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 14 | کتاب السیر (حصہ اول) | 339 | 7 | 1998 ستمبر / 1419 جمادی الاخریٰ | 712 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 15 | کتاب السیر (حصہ دوم) | 81 | 15 | 1999 اپریل / 1420 محرم الحرام | 744 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 16 | کتاب الشرکۃ | 432 | 3 | 1999 ستمبر / 1420 جمادی الاولٰی | 632 |
کتاب الوقف | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 17 | کتاب البیوع | 153 | 2 | 2000 فروری / 1420 ذیقعد | 726 |
کتاب الحوالہ | |||||
کتاب الکفالہ | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 18 | کتاب الشھادۃ | 152 | 2 | 2000 جولائی / 1421 ربیع الثانی | 740 |
کتاب القضاء و الدعاوی | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 19 | کتاب الوکالۃ | 296 | 3 | 2001 فروری / 1421 ذیقعدہ | 692 |
کتاب الاقرار | |||||
کتاب الصلح | |||||
کتاب المضاربۃ | |||||
کتاب الامانات | |||||
کتاب العاریۃ | |||||
کتاب الھبہ | |||||
کتاب الاجارۃ | |||||
کتاب الاکراہ | |||||
کتاب الحجر | |||||
کتاب الغصب | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 20 | کتاب الشفعہ | 334 | 3 | 2001 مئی / 1422 صفر المظفر | 632 |
کتاب القسمہ | |||||
کتاب المزارعہ | |||||
کتاب الصید و الذبائح | |||||
کتاب الاضحیہ | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 21 | کتاب الحظر و لاباحۃ (حصہ اول) | 291 | 9 | 2002 مئی / 1423 ربیع الاوّل | 676 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 22 | کتاب الحظر و لاباحۃ (حصہ دوم) | 241 | 6 | 2002 اگست / 1423 جمادی الاخری | 692 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 23 | کتاب الحظر و لاباحۃ (حصہ سوم) | 409 | 7 | 2003 فروری / 1423 ذو الحجہ | 768 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 24 | کتاب الحظر و لاباحۃ (حصہ چہارم) | 284 | 9 | 2003 ستمبر / 1424 رجب المرجب | 720 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 25 | کتاب المداینات | 183 | 3 | 2004 مارچ / 1425 محرم الحرام | 658 |
کتاب الاشربہ | |||||
کتاب الرھن | |||||
باب القسم | |||||
کتاب الوصایا | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 26 | کتاب الفرائض | 325 | 8 | 2004 اگست / 1425 جمادی الاخری | 616 |
کتاب الشتی (حصہ اوّل) | |||||
فتاویٰ رضویہ: جلد 27 | کتاب الشتی (حصہ دوم) | 35 | 10 | 2005 جنوری / 1425 ذیقعدہ | 684 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 28 | کتاب الشتی (حصہ سوم) | 22 | 6 | 2005 اگست / 1426 رجب المرجب | 684 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 29 | کتاب الشتی (حصہ چہارم) | 215 | 11 | 2005 اگست / 1426 رجب المرجب | 752 |
فتاویٰ رضویہ: جلد 30 | کتاب الشتی (حصہ پنجم) | 24 | 10 | 2005 اگست / 1426 رجب المرجب | 772 |
ٹوٹل | 6,934
جواباتِ اسئلہ |
206
رسائل |
— | 21,666
صفحات |
اہمیت و فضیلت
ترمیمیہ غالباً اُردو زبان میں دنیا کے ضَخیم ترین فتاویٰ ہیں۔ احمد رضا خان چودھویں صدی کے مجدد تھے، فتاوٰی رضویہ تو غواصِ بحرِ فقہ کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے۔[11]
احمد رضا خان بذاتِ خود فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد (طباعت اول) کے متعلق فرماتے ہیں:
بظاہر اس [فتاویٰ رضویہ کی] پہلی جلد میں 114 فتوے اور 28 رسالے ہیں، مگر بحمدللہ تعالیٰ ہزارہا مسائل پر مشتمل ہے جن میں صد ہا وہ کہ اس کتاب کے سوا کہیں نہ ملیں گے۔[12]
مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی فرماتے ہیں:
امام احمد رضا بے مثال ذہانت و فطانت ، کمال درجہ فقاہت اور قدیم و جدید علوم میں کامل دسترس و مہارت رکھتے تھے ۔ آپ كی تقریباً ایک ہزار کتب ہیں۔ آپ کے 55 سے زائد علوم و فنون آپ کی تبحر علمی پر دال پر ہیں۔ آپ کی جن کاوشوں کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی، ان میں سے کنزالایمان، حدائق بخش اور فتاویٰ رضویہ شامل ہیں ۔ آخر الذکر (فتاویٰ رضویہ ) تو علوم و فنون کا ایسا بحر بیکراں ہے جو پیکراں ہے جو بے شمار و مستند مسائل و تحقیقات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جسے پڑھ کر قدر دان انسانی بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ہے کہ امام احمد رضا امام اعظم کی مجتہدانہ بصیرت کا پرتو ہیں۔ آپ کی کتب رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لیے مشعل رہا ہے۔[13]
ماہرِ رضویات پروفیسر مسعود احمد دہلوی ( فرزند مفتی محمد مظہر اللہ نقشبندی) نے 1980ء میں اپنے تاثر کا اظہار اس انداز میں کیا تھا کہ:
سچ تو یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت معاصرین کے دیے جانے والے القابات کے جامع ہیں۔
محمد ادریس کاندھلوی اور امین احسن اصلاحی کے شاگرد، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے معتمد، ہفت روزہ شہاب (لاہور) کے چیف ایڈیٹر کوثر نیازی نے امام احمد رضا کانفرنس (اسلام آباد) منعقدہ 1993ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
قرطاس و قلم سے میرا تعلق دو چار سال کی ہی بات نہیں، نصف صدی کی بات ہے۔ اس دوران میں وقت کے بڑے بڑے اہلِ علم و قلم، علما و مشائخ کی صحبت میں بیٹھ کر استفادہ کرنے کا موقع ملا اور ان کے درس میں شریک رہا اور اپنی بساط کے مطابق فیض حاصل کرتا رہا۔ زندگی میں میں نے اتنی روٹیاں نہیں کھائی ہوں گی جتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ میری اپنی ذاتی لائبریری میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں، وہ سب مطالعہ سے گذری ہیں۔
ان مطالعے کے دوران میں احمد رضا کی کتب نظر سے نہیں گذری تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ علم کا خزانہ پا لیا ہے اور علم کا سمندر پار کر لیا ہے، علم کی ہر جہت تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ مگر جب احمد رضا خان کی کتابیں مطالعہ کیں اور ان کے علم کے دروازے پر دستک دی اور فیض یاب ہوا تو اپنے جہل کا احساس اور اعتراف ہوا۔
یوں لگا کہ ابھی تو علم کے سمندر کے کنارے کھڑا سیپیاں چن رہا تھا۔ علم کا سمندر تو امام کی ذات ہے۔ احمد رضا بریلوی کی تصانیف کا جتنا مطالعہ کرتا جاتا ہوں، عقل اتنی ہی حیران ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ امام احمد رضا حضور نبی کریم ﷺ کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا وسیع علم دے کر دنیا میں بھیجا ہے کہ علم کی کوئی جہت ایسی نہیں جس پر امام کو دسترس حاصل نہ ہو اور اس پر کوئی تصنیف نہ کی ہو۔
یقیناً آپ سرکارِ دوعالم ﷺ کے علوم کے صحیح جانشین تھے، جس سے ایک عالم فیض یاب ہوا۔[14]
معین الدین ندوی لکھتے ہیں:
مولانا احمد رضا خان مرحوم صاحبِ علم و نظر مصنفین میں سے تھے۔ دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی۔ مولانا نے جس وقت نظر اور تحقیق کے ساتھ علما کے استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے، اس سے ان کی جامعیت علمی بصیرت قرآنی استحضار ذہانت اور طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے عالمانہ محققانہ فتاوٰی مخالف و موافق ہر طبقہ کے مطالعہ کے لائق ہیں۔[15]
محمد یوسف بنوری کے والد زکریا شاہ بنوری شاوری نے فرمایا:
اگر اللہ تبارک و تعالیٰ ہندوستان میں احمد رضا خان بریلوی کو نہ پیدا فرماتا تو ہندوستان میں حنفیت ختم ہو جاتی۔[16]
ملک غلام علی (نائب و مشیرِ سید ابوالاعلیٰ مودودی ) لکھتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاوٰی کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی، وہ بہت کم علما میں پائی جاتی ہے اور عشق خدا اور رسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔[17]
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے محمد متین خالد لکھتے ہیں:
احمد رضا خان بریلوی مقتدر علما روزگار سے تھے۔ مختلف موضوعات پر ان کی تقریباً ایک ہزار کے قریب تصانیف بیش بہا علمی ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بالخصوص فتاوٰی رضویہ موجودہ دور کا علمی شاہکار ہے۔[18]
جامعاتی تحقیق
ترمیممصنف | موضوع | عنوان | نگران مقالہ | ڈگری | ادارہ |
---|---|---|---|---|---|
احمد سعید طفیل | فقہ | فتاویٰ شامی کے فتاویٰ رضویہ پر ا ثرات کا تحقیقی جائزہ | محمد ممتاز الحسن | ایم فل | منہاج یونیورسٹی لاہور |
اعظم علی | سیرت | فتاویٰ رضویہ میں مباحث سیرت کا تجزیاتی و تحقیقی مطالعہ | ڈاکٹر مطلوب احمد رانا | ایم فل | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد (2012ء–2014ء) |
رقیہ چمن | فقہ | مباحث اصولِ فقہ: فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں تحقیقی جائزہ | ہمایوں عباس شمس | ایم فل | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد |
زینت یاسمین | معاشیات | فتاویٰ رشیدیہ اور فتاویٰ رضویہ کے معاشی مسائل کا تقابلی جائزہ | ڈاکٹر ساجد اقبال | ایم فل | یونیورسٹی آف سرگودھا، سب کیمپس بھکر، پنجاب (2015ء–2017ء) |
سفینہ علی، سیّد | تفسیر | فتاویٰ رضویہ کے تفسیری مباحث (جلد نمبر 11، 12) | فیض اللہ بغدادی | ایم اے | منہاج یونیورسٹی لاہور |
صبا نور | معاشیات | امام احمد رضا خان کے معاشی نظریات، اجارہ و مضاربت اور عصرِ حاضر میں اس کی افادیت: فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں | ناہید کوثر | ایم فل | یونیورسٹی آف فیصل آباد، پتوکی کیمپس |
عاطف فضل | فقہ | فتاویٰ رضویہ میں آثارِ صحابہ سے استدلال کا اسلوب: فقہ الاسرہ کے تناظر میں | محمد نعیم حافظ | ایم فل | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور |
عبدالمصطفیٰ صابر | حدیث | فتاویٰ رضویہ میں فن حدیث کے اہم مباحث کا تحقیقی مطالعہ | محمد ریاض محمود | ایم فل | گفٹ یونیورسٹی، گوجرانوالہ |
علی نواز | سیرت | فتاویٰ رضویہ میں مباحثِ سیرت | محمد حامد رضا | ایم اے | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد |
عمر دراز رانا | تصوف | فتاویٰ رضویہ میں مباحث تصوف: مطالعہ و جائزہ | — | ایم فل | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد |
قیصر ایوب | فقہ | فتاویٰ رضویہ، امداد الفتاویٰ اور فتاویٰ ثنائیہ کے مناہج کے تقابلی مطالعہ | ڈاکٹر محفوظ احمد | ایم فل | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد (2007ء–2009ء) |
محمد اسحاق مدنی | سیاسیات | برصغیر کی سیاست میں فتاویٰ رضویہ کا حصہ | جلال الدین احمد نوری | پی ایچ ڈی | جامعہ کراچی |
محمد جمیل الرحمٰن | حدیث | فتاویٰ رضویہ میں علمِ جرح و تعدیل کی مباحث | ہمایوں عباس شمس | ایم فل | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد |
محمد خضر حیات، حافظ | معاشیات | امام احمد رضا بریلوی کی معاشی فکر اور عصرِ حاضر: فتاویٰ رضویہ کا خصوصی مطالعہ | محمود سلطان کھوکھر | ایم فل | بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان |
محمد عبد القوی | حدیث | علم مختلف الحدیث اور اس کا فتاویٰ رضویہ میں اطلاق | محفوظ احمد | ایم فل | یونیورسٹی آف فیصل آباد |
محمد محبوب رضا | فقہ | فتاویٰ رضویہ کا منہج و اسلوب: کتاب الطہارت کی روشنی میں | محمد قاسم بٹ | بی اے ایچ | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور |
محمد وسیم | عقائد | المبین ختم النبیین کا تحقیقی مطالعہ اور منکرین ختم نبوت کا ردّ: فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں | — | ایم فل | نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس، ملتان |
ممتاز احمد | فقہ | فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ شامی پر فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں | سعید احمد سعیدی | پی ایچ ڈی | لاہور گیریژن یونیورسٹی |
نور صالحہ | عقائد | فتاویٰ رضویہ میں مباحث عصمت و رسالت | محمد حامد رضا | ایم اے | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ علامہ حافظ محمد عبد الستار سعیدی (ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور و شیخوپورہ)۔ "پیش لفظ: فتاویٰ رضویہ--جلد 30"۔ مقدمہ فتاویٰ رضویہ: جلد 30۔ رضا فاؤنڈیشن: لاہور، 2005ء، صفحہ 10۔
- ↑ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس۔ "برصغیر کے چند جید علما کی کتب فتاوی"۔ فکر ونظر: 2006ء، جلد 44، شمارہ 1، صفحہ 41۔
- ↑ کم کلارک (Kim Clarke)۔ "پروفیسر پورٹاز پری ڈک شنز (Professor Porta's Predictions)۔" یونیورسٹی آف مشی گن: اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2025ء۔
- ↑ روزنامہ نوائے وقت، 27 دسمبر 2013، صفحہ 13
- ↑ امام احمد رضا خان۔ فتاویٰ رضویہ: جلد 3، باب التیمم، رضا فاؤنڈیشن: لاہور، صفحہ 686۔
- ^ ا ب پ حافظ غلام یوسف۔"اکابر علمائے بریلی کی کتب فتاوی - تجزیاتی مطالعہ"۔ جہات الاسلام: 2011ء، جلد 5، شمارہ 1، صفحہ 134۔
- ↑ محمد دانش۔ "فتاویٰ رضویہ کی 10 خصوصیات"۔ ماہنامہ فیضان مدینہ: کراچی، صفر المظفر 1442ھ۔
- ^ ا ب ڈاکٹر رشید احمد جالندھری (ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور)۔ "فتاوی رضویہ کی غیر معمولی اہمیت۔" مقدمہ فتویٰ رضویہ: جلد 7۔ رضا فاؤنڈیشن: لاہور، 1994ء، صفحہ 7۔
- ↑ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر (چیئرمین شعبہ عربی، پنجاب یونیورسٹی)۔ "فتاویٰ رضویہ کی علمی قدر و قیمت۔" مقدمہ فتویٰ رضویہ: جلد 6۔ رضا فاؤنڈیشن: لاہور، 1994ء، صفحہ 9۔
- ↑ مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی (صدر مفتی شیخ الحدیث ادارہ شرعیہ، اتر پردیش)۔ خصائص فتاویٰ رضویہ۔"فتاویٰ رضویہ کا موضوعاتی اشاریہ۔" مولانا نور الدین اکیڈمی: اتر دیناج پور (بنگال)، 2021ء، صفحہ 52۔
- ↑ مولانا مصطفیٰ رضا خان۔ ملفوظات اعلیٰ حضرت۔ مکتبۃ المدینہ، کراچی، 2009ء، صفحہ 43۔
- ↑ امام احمد رضا خان۔ فتاویٰ رضویہ: جلد 1۔ رضا فاؤنڈیشن: لاہور، 1990ء، صفحہ 21۔
- ↑ مولانا الیاس عطار قادری رضوی۔ پیش لفظ والدین ، زوجین اور ساتذہ کے حقوق۔ مکتبۃ المدینہ: کراچی، 2006ء صفحہ 12 تا صفحہ 13۔
- ↑ مولانا یٰس اختر مصباحی۔ امام احمد رضا اور جدید افکار و تحریکات۔ رضا اکیڈمی: ممبئی، 2010ء، صفحہ 30 تا 31۔
- ↑ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ۔ ستمبر 1949ء، بحوالہ سفید و سیاہ، ص 114، 115۔
- ↑ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت۔ القلم: دہلی، صفحہ 32۔
- ↑ ارمغان حرم۔ لکھنؤ، صفحہ14، بحوالہ سفید و سیاہ، صفحہ 114۔
- ↑ عاشق مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امام احمد رضا اور حدائق بخشش۔ صفحہ 6 تا 7۔