فیض بہرائچی

2015ء میں اپنی ایک کتاب بنام احساسات فیضؔ کے نام سے شائع کی

فیضؔ بہرائچی کی پیدائش 1977ء میں محلہ چاند پورہ شہر بہرائچ میں جناب نسیم اللہ اور رحیم النساء کے گھر میں ہوئی۔ آپ کے داداشفیع بہرائچی اپنے وقت کے نامور شاعر تھے۔ فیض کے بچپن میں ہی ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا جس سے وہ غمزدہ رہنے لگے اور جس وجہ سے تعلیم بھی ادھوری رہ گئی ۔

فیض بہرائچی
[[File:
فیضؔ بہرائچی کی حالیہ تصویر 2017ء میں
|200px|alt=]]
فیض بہرائچی
پیدائشمحمد فیض اللہ
11 جون 1977ء
محلہ چاند پورہ شہر بہرائچ، اتر پردیش، ہندوستان
رہائشمحلہ شہر بہرائچاتر پردیش ہندوستان
اسمائے دیگرمحمد فیض اللہ
پیشہادب سے وابستگی، تجارت
وجہِ شہرتشاعری
مذہباسلام
شریک حیاتشبنم فیض
اولادلائبہ فیض، بلال فیض، زید فیض

ادبی سفر

ترمیم

فیضؔ بہرائچی کو بچپن سے ہی ادبی ماحول ملا جس وجہ سے اور دادا شفیع بہرائچی کی بیاض کو پڑھنا شروع کر دیا تھا جس سے شعر کہنے کا فن حاصل ہو گیا اور اپنے شعر کہنے لگے ۔شفیع بہرائچی کی دکان پر وصفی بہرائچی آیا کرتے تھے ایک دن کی بات ہے وصفی صاحب شفیع صاحب کی بیاض لے گے تھے اسے واپس کرنے کو آئے تھے فیض بھی وہیں بیٹھے تھے اور شعر گنگنا رہے تھے کی فیض کے چچا علیم صاحب نے وصفی صاحب سے کہا کی میرا بھتیجا ہے اور شاعری کا شوق ہے کچھ کہتا بھی ہے آپ اس کی اصلاح کر دیا کریں۔ وصفی صاحب اس دن سے روز سنگم ہو ٹل پر آنے لگے اور اس طرح فیض کو ایک استاد کا سایا حاصل ہوا جس کی دیکھ ریکھ میں شاعری پر واز پائی۔

2-3 سالوں کے بعد استاد وصفی صاحب کا انتقال ہو گیا اور فیض کا شاعر ی سے دل ہٹ گیا اور وہ اپنی تجارت میں مشغول ہو گئے۔ کچھ دوستوں کے کہنے پر شاعری کی طرف پھر رخ کیا اور 2015ء میں اپنی ایک کتاب بنام احساسات فیضؔ کے نام سے شائع کی جس میں اپنے دادا جناب شفیع بہرائچی کے محفوظ کلام کو اپنے کلام کے ساتھ شائع کیا جس میں زیادہ تر کلام استاد وصفی بہرائچی کے اصلاح کیے ہوئے ہیں۔

 
فیضؔ بہرائچی

اہم شخصیات سے رابطہ اور ادبی خدمات

ترمیم

محمد حسنین اطہر رحمانی شارق ربانی منظورؔ بہرائچی، ریئس صدیقی بہرائچی، فوقؔ بہرائچی سے گہرے تعلقات ہیں۔ فیض بہرائچی حمد نعت اور غزل پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہے۔ آپ کا کلام روزنامہ صحافت لکھنؤ روزنامہ سہارا لکھنؤ میں شائع ہو چکا ہیں۔

نمونہ کلام

ترمیم
چھوڑ دوشہر محبت فیضؔ بہتر ہے یہی

جان ہی جائے گی اک دن تیری ان کے پیار میں

مت پوچھیے یہ مجھ سے کہ کیا سیکھ لیا ہے

ہر ہال میں جینے کی ادا سیکھ لیا ہے

غم سے گھبرا کے کبھی لب پہ جو آتی ہے ہنسی وہ تصور میں مجھے آکے رلا دیتے ہیں
اہل دل کو تو یہی کہتے سنا ہے اے فیضؔ اپنے بیمار کو دامن کی ہوا دیتے ہیں

حوالہ جات

ترمیم