لالہ موسیٰ
لالہ موسیٰ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے جو ضلع گجرات اور تحصیل کھاریاں میں واقع ہے۔
لالہ موسیٰ | |
---|---|
لالہ موسیٰ Lalamusa |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | ![]() |
تقسیم اعلیٰ | تحصیل کھاریاں |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 32°42′04″N 73°57′38″E / 32.70120°N 73.96050°E |
بلندی | |
آبادی | |
کل آبادی | |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 1172318 |
![]() |
|
درستی - ترمیم ![]() |
قومی شاہراہ (جی ٹی روڈ) اس شہر کے درمیاں سے گزرتی ہے اور اس کو لاہور، اسلام آباد، پشاور، کراچی اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں سے ملاتی ہے۔
لالہ موسیٰ جنکشن ریلوے اسٹیشن پاکستان ریلویز کی کراچی - پشاور مرکزی ریلوے لائن پر لالہ موسیٰ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں تمام اکسپريس ٹرینیں رکتی ہیں۔ یہ لالہ موسیٰ - شور کوٹ براستہ سرگودھا برانچ ریلوے لائن کا جنکشن بھی ہے۔
اسلام آباد اور لاہور کے وسط میں واقع ایک شہر جو محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس شہر کی تاریخ تو ہزار سال پرانی ھے لیکن اسکو آباد کرنے والے آرائیں بھائی لالہ اور موسی تھے جو موجودہ پرانا لالہ موسی میں آ کر آباد ھوئے اسی نسبت سے اس شہر کا نام لالہ موسی پڑ گیا۔اس شہر میں لوگ نہیں داستانیں بستی ہیں ، 1880ء میں انگریزوں نے جب محل وقوع کا جائزہ لیا تو یہاں کی جگہ کی اہمیت کو دیکھتے ھوئے ایک ریلوے اسٹیشن کی بنیاد رکھی جو ایک جنکشن کی صورت اختیار کر گیا، شیر شاہ سوری نے جی ٹی روڈ کی بنیاد ڈالی تو یہاں کی غلہ منڈی برصغیر کی کاروباری مرکز کی اہم توجہ بن گئی ، ملک بھر سے یہاں کاروبار کو وسعت ملا آج بھی اس غلہ منڈی پنجاب بھر میں ایک اہمیت کی حامل ھے۔ لیکن یہاں تاجروں میں عدم اتفاق اور یونین برائے نام ھے خود ساختہ تاجر تنظیم منتخب نہیں سلیکٹ ہوتی ہیں تقسیم ہند سے پہلے یہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو ، سکھ ، اور کچھ انگریزوں کے خاندان آباد تھے جو تقسیم کی بعد نقل مکانی کر گئے ، تاریخی عمارتوں کو تلاش کریں تو آپ کو مایوسیوں کے سوا کچھ نا ملے گا۔ شہر کے وسط میں ایک مندر ہوتا تھا جو آباد گاہ بن گیا ، گوردوارہ تھا جسکو اسکول بنا دیا گیا انگریزوں کا ایک قبرستان جو شاید انکی یہاں موجودگی کا احساس دلاتا تھا۔ ریلوے اسٹشن پر شاید اس لیئے تعمیر نو اور زیبائش کا کام نہیں کیا گیا تاکہ یہ ہمیں اس دور کی یاد دلاتا رہے شہر کی مقامی زبان تو پنجابی ھے لیکن یہاں مختلف اقوام آ کر آباد ھو گئیں۔ ایک طرف بہار سے آئے ھوئے بہاری آباد ہیں تو ایک طرف مہاجر یہاں اردو بولنے والے بھی ہیں ، مختلف لہجے میں پنجابی بولنے والے بھی یہاں سادات خاندان گجر ، آرائیں ، جٹ ، شیخ اور قریشی کچھ پہلے سے آباد تھے اور کچھ نقل مکانی کر کے آئے۔ یہاں مٹی زرخیز ھے لیکن جو ترقی کرتا ھے وہ شہر چھوڑ جاتا ھے۔ یہاں فوج کے افسر بھی بنے ہیں اور مقبول سیاستدان بھی شاعر بھی گلوکار بھی مرالے کے فضل الہی جو صدر پاکستان بنے، کولیاں کے افضل حیات جو وزیر اعلی پنجاب بنے ، کائرہ کے قمر زمان کائرہ جو گلگت کے پہلے گورنر اور وفاقی وزیر بنے ، سادات کے سید منظور حیسن شاہ بھی سیاست میں اپنا مقام رکھتے تھے ، اس مٹی کے سپوت جاوید چوھدری بھی ہیں جو صحافت میں نام کماتے ہیں، موسیقی کو ایک نام دینے عالم لوہار اور اسکے بیٹے عارف لوہار ، روشن آرا بیگم بھی اس شہر سے ہیں دوسروں سے محبت اور وفا اس خون مین شامل ھے، منی لاڑکانہ بھی اسی شہر کو قرار دیا گیا جہاں کے باسیوں نے سندھ دھرتی کے سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو کاندھوں پر اٹھایا اور اسکی بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا جسکی حفاظت کی خاطر یہاں کا بیٹا توقیر اپنی جان نچھاور کر گیا ، شہر شہر داراں دا کے نعروں کو یہاں کوئی اہمیت نہیں ملی اب عام انتخابات میں نواح سے آئے وفاقی وزیر جعفر اقبال کو سر آنکھوں پہ بٹھایا لوگوں کے نظریات اور وفائیں تبدیل ھوتی رہیں لیکن اس شہر پر دہائیوں سے گجر اور سادات ہی اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتے رہے یہاں کمانڈر شہزاد لائبریری بھی ھے جو اس شہر اور علم سے مبحت رکھنے والے ایک سپوت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لائبریری کو دیکھتے ہیں تو لگتا اس شہر کا ہر باسی علم دوست ھے بندوق اٹھائے اور خاندانی دشمنی کلچر کو دیکھیں تو یہاں جہالت کا بسیرا نظر آتا ھے ۔ جو شاید اب کافی حد تک کم چکا ۔ یہ جہالت اور انا ہزاروں گھروں کے چراغ گل کر گئی ، خاندان اجڑ گئے یہاں امام دین جنجوعہ کا دیا ھوا پودا جنجوعہ کالج بچیوں کو تعلیم سے روشناس کروا کر اب ایک قد آور درخت بن چکا ھے درد دل رکھنے والے افراد کی المدد چئیریٹی بھی ھے اور اپنی مدد آپ کے تحت فلاح و بہبود کی سردار پورہ چیئرئٹی بھی ، مسائل اور فلاح کے لیئے عرفان صفی ، مہر رشید جیسے نام بھی ہیں اور ایدھی جیسے اعزازی نام لیئے الحاج شیخ خلیل بھی اس شہر کی خادمات یتیم پروری کی اعلی مثال خواجہ نور احمد کا نور کمپلیس بھی ھے اور توحید کا پرچم اٹھائے مولانا عبدالخالق جامعی بھی یہاں سے گزے، محمدی فری سوسائٹی بھی ھے نونے حلوائی کی برفی کے چرچے اور میاں جی کی دال کے چرچے وطن سے باہر تک ہیں کبھی اس دال میں وہ لذت تھی جو شہر کے چھوٹے سے ہوٹل میں ھوا کرتی تھی
تہزیب کا سفر جہاں سے گزرا اپنے ساتھ آسانیاں لے آیا اور کئی یادیں ہم سے جدا کر گیا کہیں ایک بازار میں تیل کے کولہو ھوا کرتے تھے اور کہیں ایک قصبے میں مٹی کے برتن بنا کرتے تھے پانی کے گھڑے مٹی کے برتن جو ہماری صدیوں تک ثقافت رہی اب صرف یہ گھروں میں سجاوٹ کے کام آتے ہیں۔ پاک پور چائنہ فیکڑی جہاں ہزاروں گھروں کا جولہا جلتا تھا آج ویران پڑی ھے۔ کبھی یہاں لوگوں کی تفریح کے لیئے واحد سینیما گھر ہوا کرتا تھا وہ بھی شاید 80ء کے نظریات کی تاب نہ لا سکا اور کاروبار کی نظر ھو گیا ، اپنے طور پر ایک برکت پارک بنا تھا جو کسی تہوار پہ رونق کا سامان تھا اب اسکول بنوا کر منافع بخش ادارہ بن گیا، حاجی اصغر صاحب کے نام سے ایک پارک تو بنا لیکن اس میں رونق بحال نہ ھو سکی اس خطہ اور گرد و نواح کی اکثریت بیرون ملک آباد ھے دیہات جنکی خوبصورتی زراعت اور کھیت تھے ولائتی کرنسی سے کوٹھیوں اور بنگلوں میں تبدیل ھونے لگے ایک وقت روڈ کے ایک جانب تو آبادی تھی دوسری طرف ہریالی یہ شہر اب ہر سو پھیلتا جا رہا ہے۔ تاحد نظر لہراتے ہریاول سے بھرے کھیت سکڑتے جا رہے ہیں اور منزلوں پر منزلوں سے لدے مختلف رنگوں کے گھر بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہرے بھرے کھیت اب پلازوں اور کمرشلازم کی نظر ھو گئے۔ گندم کی کٹائی اور بہار کی آمد پر میلے لگا کرتے تھے درباروں پر چراغ جلتے تھے ہمارے بزرگ جو ہجرت کر کے آئے تھے اپنے بچوں اور بوتوں کو اپنی دکھ بھری داستانیں سنا کر محبت اور ایثار سکھا لفظوں میں سموئے تکمیل پاکستان میں اپنے خون سے رنگ بھرتے تھے ان کی یہ کہانیاں نئی نسل میں وطن کی اہمیت اجاگر کرتی تھیں وقت اور ٹیکنالوجی کا یہ سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا جو نئی نسل کو منتقل نا ھو سکا سب کچھ بدل چکا ہے۔ نہیں بدلہ تو بس اس شہر کا نصیب[2]
حوالہ جاتترميم
- ↑ "صفحہ لالہ موسیٰ في GeoNames ID". GeoNames ID. اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2023ء.
- ↑ مہر عبدالرحمن طارق