لیپ سال
جس سال 29 فروری ہو تو یہ لیپ سال ہوتا ہے۔ یعنی ایسا سال جس میں فروری کا مہینہ 28 کی بجائے 29 دن کا ہوتا ہے۔ گویا اس برس 365 کی بجائے تین 366 دن ہوں گے۔
لیپ سال
ترمیمعموماً یہ دن ہر چار سال کے بعد آتا ہے۔ یہ وہ سال ہوتا ہے جو چار پر پورا پورا تقسیم ہو جائے جیسے 1996، 2000، 2004، چار پر پورے تقسیم ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ لیپ سال تھے۔ یاد رہے کہ جو سال 100 پر پورا پورا تقسیم ہوں وہ چار پر پورا تقسیم ہونے کے باوجود لیپ سال نہیں ہوں گے۔ 400 پر پورا پورا تقسیم ہونے والے سال بھی لیپ کے سال ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 1900، 2100، 2200، 2300 لیپ کے ساتھ نہیں جبکہ 2000 اور 2400 لیپ سال ہیں۔
لیپ کی وجہ
ترمیمقدیم مصریوں نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ زمین سورج کے گرد 365 دن میں چکر مکمل نہیں کرتی بلکہ اس سے کچھ زیادہ وقت لگاتی ہے۔ اسی لیے گذشتہ ہزار سال سے انسان اس کوشش میں لگا رہا ہے کہ کس طرح موسموں کے اوقات میں ایک مطابقت رہے اور کھیتی باڑی سمیت دیگر کام ایک نظام کے تحت ہو سکیں۔
زمین کا سورج کے گرد گردش کا دورانیہ 365 دنوں کا نہیں ہے بلکہ چوتھائی دن زیادہ ہے۔ یعنی 365 دن، پانچ گھنٹے، 49 دقیقے (منٹ) اور 12 ثانیے (سیکنڈ)۔ اور چونکہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اس لیے موسموں کی تبدیلی کا انحصار بھی زمین اور سورج کے اس گردش کے رشتے پر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہر سال 365 دن رکھیں تو ہر سال میں چوتھائی دن کا فرق پڑنے لگتا ہے اور کیلنڈر موسموں سے دور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
تاریخ
ترمیمیہی وجہ تھی تقریباً 45 قبل مسیح میں روم کے بادشاہ جولیس سیزر نے کیلنڈروں کی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جس نے فیصلہ کیا کہ ہر چار سال میں سے ایک سال 366 دنوں کا کیا جائے۔ اسی لیے جولیس سیزر کے دور میں 46 قبلِ مسیح میں 90 دن کا اضافہ کیا گیا تاکہ زرعی موسموں کا بہتر انتظام ہو سکے۔ یہ وہ سال تھا جب سال 445 دنوں کا گیا۔ جولیس سیزر نے اسے ’لاسٹ ایئر آف کنفیوژن‘ (انتشار کا آخری سال) کہا، لیکن عام لوگوں کے لیے یہ انتشار کا سال ہی تھا۔ اس میں فصل بونے کے وقت کا تو تعین ہو گیا لیکن باقی سب کچھ گڑ بڑ ہوا۔ جہاز رانی کے نظام الاوقات سے لے کر لوگوں کے درمیان قانونی معاہدوں تک۔
جولیس سیزر کی موت کے بعد ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کی بجائے یہ اضافہ ہر تین سال کے بعد کیا جانے لگا۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر رومن کیلنڈر موسموں سے آگے بھاگنے لگا۔
یہ مسئلہ جولیس سیزر کے بعد آنے والے اصلاح پسند بادشاہ آگسٹس سیزر نے 8 قبلِ مسیح میں حل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے تین لیپ سالوں کو چھوڑ دیا یا یوں کہیے کہ ان پر سے چھلانگ لگا کر ان کو پیچھے چھوڑا اور اس طرح یہ سلسلہ 16 ویں صدی تک چلتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کیلنڈر کے مہینوں میں آج تک جولیس سیزر اور آگسٹس کو یاد رکھا جاتا ہے۔ جولیس کو جولائی کی شکل میں اور آگسٹس کو اگست کی صورت۔
جامعہ کراچی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سپیس اینڈ پلینٹری ایسٹروفزکس کے اسسٹنٹ پروفیسر شاہد قریشی کہتے ہیں کیونکہ ہر سال زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے کے دورانیے میں فرق ہوتا تھا اس لیے 16 ویں صدی میں پاپ گریگوری تیرہ نے اس کیلنڈر میں تبدیلی کر کے یہ مسئلہ بھی حل کرنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق سورج کے گرد زمین کا اصل دورانیہ 365.25 نہیں ہے بلکہ 365.24 ہے۔ چنانچہ اگر ہر سال ایک دن کا اضافہ کیا جائے گا تو کچھ سالوں میں موسم اپنے وقت سے دور ہو جائیں گے۔ مثلاً مون سون روایتی مہینوں میں نہیں بلکہ ہوتے ہوتے نومبر، دسمبر میں آنے لگے گا۔ تو اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے 16 ویں صدی میں پاپ گریگوری نے ایک کمیشن قائم کیا جس میں یہ طے پایا کہ ہر 400 سال میں 100 لیپ سال ہونے کی بجائے 97 لیپ سال ہوں گے۔ کیلنڈر کی درستی کی وجہ سے یہ کیلنڈر گریگورین کیلنڈر بھی کہلاتا ہے۔ اس سے قبل 45 قبلِ مسیح سے لے کر 16 ویں صدی تک ہر چار سال کے بعد ایک لیپ سال ہوتا تھا۔
اس لیے یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ہر چوتھا سال لیپ سال ہوتا ہے۔
فوائد
ترمیملیپ سال بنانے کے اور بھی فوائد ہیں۔ مثلاً اب ہمیں پتا ہے کہ سال کا لمبا دن ہمیشہ 21 جون کو ہو گا، سب سے چھوٹا دن 21 دسمبر کو ہو گا اور برابر کے دو دن 21 مارچ اور 21 ستمبر کو ہی ہوں گے۔ تو اس لیے لیپ سال کی وجہ سے سورج اور زمین کی ہیرا پھیری کو کوئی ترتیب مل جاتی ہے اور انتشار نہیں پھیلتا۔ اگر لیپ سال میں تبدیلی نہ کی جاتی تو ہر 400 سال میں واضح فرق سامنے آتا چلا جاتا۔ اب انسانوں میں ہو یا نہ ہو لیکن کھیتی باڑی اور فصلیں اگانے کے لیے موسموں کے اوقات میں ضرور مطابقت پیدا ہو گئی ہے اور ہزاروں سال تک اس میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔