مجوکہ ایک قبیلہ کا نام ہے جس کا آغاز راجستھان، ہندوستان سے ہوا۔ اس قبیلہ کی ایک بڑی تعداد آج کل جہلم دریا کے کنارے آباد حویلی مجوکہ، پاکستان اور خطلبانہ راجستھان، ہندوستان میں ہے۔ مجوکہ قبیلہ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ راجستھان سے ہجرت کر کے پہلے سندھ کے علاقہ میں موجودہ لاڑکانہ اور روٹوڈیرو اور پھر وہاں سے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے پنجاب میں حویلی مجوکہ کے مقام پر پہنچے۔

مجوکہ قبیلہ کی ایک بہت بڑی تعداد دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر واقع گاؤں " احمد آباد جنوبی" میں بھی آباد ہے جو اپنی تہذیب اور رہن سہن کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔کہا جاتاہے کہ اس گاؤں کے لوگ نہایت ہی مخلص اور مہمان نواز ہیں

قدیر احمد مجوکہ

تاریخ

ترمیم

آغاز اور ہجرت

ترمیم

مجوکہ قبیلہ کی اپنی روایات کے مطابق ان کا تعلق قطب شاہ اعوان سے ہے جو مشہور اعوان قبائل کے جد امجد کہلاتے ہیں۔ اعوان کے متعلق دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت علی (ر)ابن ابی طالب , حضرت غازی عباس بن علی, کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قطب شاہ اعوان نے ایک کھوکھر شہزادی سے شادی کی تھی جس سے حضرت قطب شاہ اعوان کا بیٹا زمان کے عرف کھوکھر اعوان پیدا ہوا زمان کے عرف کھوکھر اعوان کا ایک بیٹا معظم تھا۔ جس سے "معظم کے " کہلاتے تھے معظم نام کو کھوکھر "معجم" بولتے تھے اس طرح معظم کی اولاد "معجم کے " کہلانے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام بگڑ کر "مجو کے " اور پھر "مجوکہ" ہو گیا۔

معظم کے خاندان میں سے بعض نے نا معلوم وجوہات کی بنا پر راجستھان کو چھوڑ کر مغرب کا سفر اختیار کیا اور سندھ دریا کے کنارہ پہنچ گئے۔ وہاں سے انھوں نے دریا کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب پنج ند تک سفر کیا۔ یہاں سے دریائے سندھ کو چھوڑ کر شمال ہی کی جانب دریائے جہلم کے کنارے موجودہ جگہ "حویلی مجوکہ" پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ قریبا 400 سال قبل کا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس وقت اس علاقے میں بلوچ قوم آباد تھی۔ مقامی بلوچ سردار نذدیکی شہر "خواجہ ابرءوں" میں رہتا تھا۔ مشہور ہے کہ اس نے ایک قلعہ تعمیر کر رکھا تھا اور اس کے پاس ایک جنگی ہاتھی بھی تھا۔ سردار نے مجوکوں کو اپنے شہر آنے اور وہاں آباد ہونے کو کہا۔ لیکن مجوکہ قبیلہ نے شہر کی بجائے موجودہ جگہ پر رہنا پسند کیا۔ اس پر بلوچ سردار نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔

لڑائی میں ایک بلوچ مارا گیا اور وہ جگہ جہاں وہ گرا "کلی پٹ" کہلائی۔ یہ مجوکہ علاقے کی جنوبی حد بھی ہے۔ یہ جگہ اب تک معلوم ہے۔ مجوکہ قبیلہ کی رہنمائی ایک "پیر" کر رہے تھے جن کا تعلق مقامی "کانجو" قبیلہ سے تھا۔

سکھ دور

ترمیم

سکھ دور میں مجوکہ قبیلہ میں اندرونی اختلاف پیدا ہو گیا۔ دو سردار، فتح محمد اور غازی جو "تاجے کے " خاندان سے تعلق رکھتے تھے نے مقامی حکمران محرم بھٹی کے ساتھ مل کر اپنے مخالف احمد ولد خان کو علاقہ سے نکال دیا۔ کچھ عرصہ بعد احمد نے اس ذیادتی کے خلاف مجوکہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ محرم بھٹی پر پہلا حملہ نکام ہونے کے بعد دوسرا حملہ کامیاب رہا اور محرم بھٹی ایک کنویں میں گر گیا جہاں اسے مار دیا گیا۔ احمد گاءوں واپس آ گیا اور فتح محمد اور غازی کی وفات کے بعد مجوکہ قبیلہ کا سردار بن گیا۔

انگریز دور

ترمیم

انگریزوں کے ہاتھوں پنجاب کی فتح کے بعد علاقہ کی حد بندی ہوئی۔ اس مقصد کے لیے احمد ولد خان انگریز افسروں کے ساتھ گیا اور مندرجہ ذیل حدود مقرر ہوئیں۔

جنوب میں کلی پٹ سے جہانیاں شاہ تک۔ مشرق میں جہانیاں شاہ سے نہنگ تک۔ شمال میں نہنگ سے ٹھٹھی بکھ شاہ تک۔ مغرب میں ٹھٹھی بکھ شاہ سے کلی پٹ تک۔

کہا جاتا ہے کہ احمد نے اس دوران بھاگ بھائی نامی ایک عورت سے رشوت لی تھی اور اس کا علاقہ مجوکہ سرحد میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس عورت نے احمد کو پینے کے لیے دودھ کا ایک مٹکا پیش کیا جس کی تہ میں اشرفیاں چھپی تھیں تاکہ انگریز انھیں نہ دیکھ سکیں۔ احمد نے مٹکے کے وزن سے معلوم کر لیا کہ اس میں اشرفیاں ہیں اور اس کا علاقہ چھوڑ دیا۔ اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ ایک اور جگہ بھی احمد نے ذاتی مفادات کی خاطر مجوکہ رقبہ میں شامل نہ کی۔

ذیلی تقسیم

ترمیم

بلوچوں کے ساتھ کامیاب لڑائی کے بعد مجوکہ قبیلہ کو 6 حصوں جنہیں "وڑی" کہتے ہیں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر وڑی کو رقبہ کا ایک حصہ دیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے حصہ میں دوسری جگہوں پر آباد مجوکوں کو ساتھ ملا لیں تاکہ ان کی تعداد اور طاقت میں اضافہ ہو۔ یہ وڑیاں اور ان کے ذیلی خاندان یوں ہیں۔

وڑی خاندان
تاجے کے لعل، خدا یار، خضر، یار، غازی، (1) ویرو
نبال کے محمد یار، شیر، گامے، خان، برخردار، حیدر
عمرانے عمر، دلاور، کھیوے، (2) ویرو
گھسوال خضر، جمال، صاحب خان
رپوکے مسن، لعل، موسی، سوہارا، پہاڑی
اکیال نور، رانجھا , کمال، مسو، سلطان، حیات، بڈھے، روہیلے
لانگری سلطان، لنگر، سمند، بکھے

ان خاندانوں میں سے ویرو کے دونوں حصے، حیدر کے، پہاڑی اور روہیلے بعد میں موضع مجوکہ میں آ کر آباد ہوئے۔ لانگری خاندان کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ اصل میں مجوکہ قبیلہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے ساتھ آ کر آباد ہو گئے اور رفتہ رفتہ ان میں مل گئے۔

مجوکہ کا ذکر تاریخ میں

ترمیم

جھنگ ڈسٹرکٹ کے گزٹ میں 1883 میں مجوکہ گاؤں کا ذکر موجود ہے[1]

ہوریس آرتھر روز صاحب نے 1919 میں مجوکہ کا ذکر بطور زمیندار قبیلہ کے کیا ہے جو شاہ پور کے علاقہ میں موجود ہے[2]

ویکلی نے 1968 میں تحصیل شاہ پور میں مجوکہ کا ذکر کیا ہے[3]

ٹکر صاحب نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ میں ایک جگہ مجوکہ کا ذکر کیا ہے، جو اسی قبیلہ کا کوئی حصہ ہو سکتا ہے[4]

مجوکہ قبیلہ کے افراد دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ائرلینڈ، مشرق وسطی کے ممالک، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔

متبادل خیالات

ترمیم

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ راجپوت قبیلہ کئی خاندانوں میں تقسیم ہو گیا تھا جن میں سے ایک اودھ ہے۔ اودھ خاندان میں سے آگے پھر متعدد قبائل نکلے جن میں سے ایک مجوکہ بھی ہے۔،[5][6] یہ خیال اوپر درج شدہ مجوکوں کے اپنے نظریہ سے متضاد نہیں کیونکہ مجوکہ قبیلہ کی اپنی روایت کے مطابق بھی ان کے جد امجد نے ایک راجپوت شہزادی سے شادی کی تھی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Gazetteer of the Jhang District , 1883. Page 81.
  2. Horace Arthur Rose, A glossary of the tribes and castes of the Punjab and North-West frontier province in three volumes, Vol 3, Page 56, 1919 republished in 1990, Delhi, India.
  3. J. M. Wikeley, Rana Rehman Zafar. Punjabi Musalmans, Pakistan National Publishers, 1968. Page 117.
  4. H. St. George Tucker, Report of the land revenue settlement of the Dera Ismail Khan District of the Punjab, 1872-79. Page cxii. Punjab Settlement Commissioner's Office, Printed by W. Ball, 1879.
  5. KS Singh, People of India, Rajasthan, Part 2, Anthropological survey of India, 1998, Mumbai, India, Vol 38, Page 716.
  6. KS Singh, People of India, Gujrat, Part 3, Anthropological Survey of India, 2002, Mumbai, India, Vol 22, Page 1039.