محب اللہ بہاری
محب اللہ بہاری (وفات: 1707ء) عالم، فقیہ اور ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے قاضی القضاۃ تھے۔
محب اللہ بہاری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | بہار |
وفات | سنہ 1708ء چاند پور، بہار |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، فقیہ ، قاضی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمقاضی محب اللہ بہار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی درسی کتب اپنے علاقے کے علما سے پڑھیں۔ ملا قطب الدین شمس آبادی (متوفی 1121ھ مطابق 1709ء) سے اِکتسابِ فیض کیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق قاضی محب اللہ نے قطب الدین سہالوی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد دکن چلے گئے جہاں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے شاہی ملازمت میں لے لیا۔ لکھنؤ اور حیدرآباد دکن میں یکے بعد دِیگرے قاضیٔ شرع مقرر ہوئے۔ نامعلوم سبب کی وجہ سے اِس عہدے سے معزول ہوئے۔[1] معزولیٔ عہدہ کے بعد کچھ عرصہ ہی گذرا تھا کہ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے پوتے رفیع القدر بن شاہزادہ معظم کی تعلیم پر مامور کر دیا۔ مغل شہنشاہ شاہ عالم بہادر شاہ اول کے زمانہ حکومت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ تفویض ہوا اور فاضل خان کے خطاب سے نوازے گئے۔[2]
وفات
ترمیم1119ھ مطابق 1708ء میں بہار کے ایک گاؤں چاند پور میں انتقال ہوا۔ محلہ چاند پور میں تدفین کی گئی۔ تاریخ اِنتقال کا مادہ قاضی مولوی محب اللہ ( 1119ھ ) سے مخرج ہوتا ہے۔
علمی مقام و شخصیت
ترمیمملا محب اللہ قاضی کو جو شہرت ہندوستان کی تاریخ میں حاصل ہوئی، وہ بے مثال ہے۔ جملہ تذکرہ نگار اُن کی ذہانت و فطانت اور جلالت علمی کا ذِکر کرتے ہیں۔ مولوی رحمٰن علی نے انھیں اِن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ: ’’بحرے بود از بحارِ علوم و بدرے بود بین النجوم‘‘۔ محب اللہ قاضی منطق اور فلسفہ کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب بھی تھے۔ اُن کی تصانیف میں ادبی پہلو نمایاں ہے۔ غالباً یہ اُس تحریک کا شعوری یا غیر شعوری نتیجہ ہے جو میرباقر داماد اور ملا صدرالدین شیرازی کے زیر اثر پیدا ہوئی تھی۔ اُن کے وضع کردہ اور تخلیق کردہ فقرات انھی ایرانی فضلا کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔
تصانیف
ترمیمقاضی محب اللہ نے یہ تصنیف بطور یادگار چھوڑی ہے :
سُلم العلوم
ترمیمیہ کتاب علم منطق پر ہے اور فن منطق کی مشکل ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ برصغیر سے باہر منطق کی صرف دو کتب لکھی گئی ہیں کہ جنہیں عالمگیری شہرت حاصل ہوئی۔ پہلی کتاب نجم الدین عمر بن علی القزوینی کی الشمسیہ اور دوسری علامہ سعد الدین تفتازانی کی تہذیب المنطق ہے۔ درس نظامی میں اَب اِن دونوں کتب کے بعد سُلم العلوم پڑھائی جاتی ہے۔ سلم العلوم مختصر اور جامع کتاب ہے اور مؤلف نے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ تمام اشکالات اور نزاعی مباحث کا اَحاطہ کیا ہے۔ خود مؤلف نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ: ’’میری خواہش ہے کہ سُلم درسی کتابوں میں اِس طرح چمکے جیسے ستاروں میں چاند‘‘۔ مؤلف قاضی کی یہ خواہش اُن کی زِندگی میں ہی پوری ہو گئی اور علما نے اِس کتاب کی شروح لکھنا شروع کر دیں تھیں۔[3]