محرز بن نضلہ رضی اللہ عنہ(وفات: ) غزوہ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ میں سے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابقون الاولون میں سے ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی ہجرت میں شامل تھے ۔غزوہ بدر ، غزوہ احد اور غزوہ خندق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شانۂ بشانہ کھڑے رہے۔غزوہ ذی قرد میں میں شہید ہوئے ۔

محرز بن نضلہ
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محرز بن نضلہ
کنیت ابو نضلہ
لقب الاخرم[1]
عملی زندگی
نسب الاسدی
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ بدر
غزوہ احد
غزوہ خندق
غزوہ ذی قرد

نام و نسب

ترمیم

محرز نام اور ابو نضلہ کنیت ہے، لیکن اخرم اسدی کے لقب سے مشہور تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے۔

محرز بن نضلہ بن عبد اللہ بن مرہ بن کبیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ اسدی ،یہ ایام جاہلیت میں بنو عبد شمس کے حلیف تھے۔[2][1]

اسلام و ہجرت

ترمیم

قبولِ اسلام کا زمانہ متعین نہیں تاہم مومنین سابقین میں ہیں، مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو انصار کے قبیلہ عبد الاشہل نے ان کو اپنا حلیف بنا لیا اور عمار بن حزم سے اسلامی بھائی چارہ ہوا۔[3] [4]

غزوات

ترمیم

غزوۂ بدر، غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں جانبازی و شجاعت کے ساتھ سرگرم کار زار تھے، غزوۂ ذی قرد کی معرکہ آرائی ان کا سب سے شاندار اور آخری کارنامہ ہے۔[5]

شہادت

ترمیم

میں بنو فزارہ نے مدینہ کی چراگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اونٹوں پر چھاپہ مارا اور گلہ بان کو قتل کرکے اونٹوں کو اپنے ساتھ لے چلے، سلمہ بن الاکوع موقع وارادات کے قریب موجود تھے، انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام رباح کو گھوڑے پر سوار کر کے اطلاع کے لیے مدینہ بھیجا اور خود پہاڑ پر چڑھ کر یا صباحاہ کا نعرہ بلند کیا اور دیر تک تنہا تیروں اورپتھروں سے ان کا مقابلہ کرتے رہے، اسی اثنا میں درختوں کے جھنڈ سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوار نکلتے ہوئے نظر آئے، سب سے آگے اخرم اسدی یعنی محرز بن نضلہ اور ان کے پیچھے ابو قتادہ انصاری اور مقداد بن اسود تھے، سلمہ نے اخرم کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا، اخرم! آگے نہ بڑھو، مجھے ڈر ہے کہ غنیم تم کو گھیر کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب سے ملنے نہ دے گا، بولے سلمہ اگر تم خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو میری شہادت میں حائل نہ ہو، یہ جملہ کچھ ایسے جوش میں ادا ہوا تھا کہ سلمہ نے باگ چھوڑ دی اور وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے عبد الرحمن فزاری کے سامنے جا کھڑے ہوئے، انھوں نے ایک ایسا وار کیا کہ عبد الرحمن کا گھوڑا کٹ کر ڈھیر ہو گیا، لیکن اس کا نیزہ بھی خالی نہ گیا، محرز شہید ہو کر فرشِ خاک پر آئے اور وہ اچھل کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گیا، تاہم ابو قتادہ پیچھے موجود تھے، انھوں نے اس کو قتل کر کے ان کا انتقام لیا۔[6][7] [8]

فضل و کمال

ترمیم

گذشتہ واقعہ سے ان کے غیر متزلزل ایمان و شوق شہادت کا اندازہ ہوا ہوگا، شہادت سے چند دن پہلے انھوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمان کے دروازے ان کے لیے کھول دئے گئے اوروہ عالم بالا کی سیر کرتے ہوئے ساتویں آسمان اور سدرۃ المنتہی تک پہنچ گئے ہیں، یہاں سے ان سے کہا گیا کہ یہی تمھار مسکن ہے۔ دوسرے روز انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو تعبیر رویا میں کمال رکھتے تھے اس خواب کو بیان فرمایا، اخرم ! تمھیں شہادت کی بشارت ہو، چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد اس بشارت نے واقعہ کی صورت اختیار کی اور غزوۂ ذی قرد کی شہادت نے ان کو سدرۃ المنتہیٰ کے دائمی مسکن میں پہنچا دیا۔ [9] [10]

حلیہ

ترمیم

حضرت محرز بن نضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا ۔ رنگ سپید اور مجموعی حیثیت سے حسین و خوبصورت۔ [11]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - محرز بن نضلة
  2. اسد الغابہ :4/307
  3. طبقات ابن سعد قسم 1 جلد 3:67
  4. الطبقات الكبرى لابن سعد - مُحْرِزُ بْنُ نَضْلَةَ (1) آرکائیو شدہ 2016-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  5. سیر الصحابہ رضی اللہ عنھم جلد 2 -صفحہ329 - ناشر : دار الاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان
  6. تاریخ ابن خلدون جلد 3 - صفحہ87 - ناشر : دار الاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان
  7. صحیح مسلم، جلد 2، باب غزوۂ ذی قرد
  8. الطبقات الكبرى لابن سعد - مُحْرِزُ بْنُ نَضْلَةَ (2) آرکائیو شدہ 2016-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  9. (طبقات ابن سعد قسم 1 جلد 3 :67)
  10. الإصابة في تمييز الصحابة - محرز بن نضلة آرکائیو شدہ 2017-12-08 بذریعہ وے بیک مشین
  11. ( ایضاً)