محمد عمر اچھروی
مولانا محمدعمر اچھروی مناظر اعظم کے لقب سے شہرت رکھتے ہیں
ابو عبد الوہاب محمد عمر صدیقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | محمد عمر |
پیدائش | 1901ء شیروکانہ ضلع قصور |
تاریخ وفات | 21 دسمبر 1971ء |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمنام محمد عمر۔ لقب مناظرِ اسلام۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے۔ محمد عمر بن محمد امین بن عبد المالک قریشی۔ آپ غلام محی الدین قصوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن کا سلسلہ نسب سیدنا صدیق اکبر تک جاتا ہے
ولادت
ترمیممحمد عمر اچھروی 1901ء کوقصبہ "شیروکانہ" ضلع قصور پنجاب (پاکستان ) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم
ترمیمابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا محمد امین سے حاصل کی۔ علوم دینیہ مولانا صلاح الدین، مولوی محمد حسین لکھوی،مولوی عطاء اللہ لکھوی،مولوی محمد عالم سنبھلی(لاہور)سے پڑھے۔ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری کے شاگرد مولانا محمد حسین (امام و خطیب پلٹن فیروز پور)کے ہاں کچھ عرصہ زیر تعلیم رہے۔ آپ نے مدرسہ رحیمیہ دہلی میں درس حدیث کی تحصیل کی اور سند مولوی عبداللہ روپڑی(اہل حدیث)،سے حاصل کی۔ مولانا احمد علی سہارنپوری تلمیذ رشید مولانا احمد علی میٹھی سے دوبارہ حدیث شریف کا درس لیا۔ آپ نے مختلف مسالک کے مدرسوں سے تعلیم حاصل کی تاکہ ان لوگوں میں رہ کر ان کی حقیقت معلوم کرسکیں، اسی وجہ سے یہ اہلسنت کے کامیاب مناظربنے۔
القابات و خطابات
ترمیمعمراچھروی کو جامع المنقولِ والمعقول،استاذالعلماء،قاطعِ مرزائیت ونجدیت ووہابیت، حامیِ قرآن وسنت ،مناظرِ اعظم کے القاب و خطابت دیے گئے[1]
بیعت و خلافت
ترمیمعمر اچھروی شیرِ ربانی شیرمحمد شرقپوری کے مرید،اور سید محمد اسماعیل شاہ المعروف "حضرت کرمانوالہ"کے فیض یافتہ تھے۔
مناظر اعظم
ترمیممحمد عمر اچھروی کی ذات علما وعوام میں وجہ تعارف مناظرہ ہے قیامِ پاکستان سے قبل 1940ء میں کی شہرت پورے برِ صغیر میں پھیل گئی تھی۔ انھیں قدرت نے تمام علومِ متداولہ میں بالعموم اور "علم المناظرہ" میں بالخصوص وافر حصہ عطافرمایاتھا۔ مناظرے میں یہ کمال حاصل تھا کہ مخالفین کے بڑے بڑے مناظر مقابلے میں آنے سے گھبراتے تھے،اگرکوئی آجاتا پہلے تووہ بھاگنے پر مجبورہوجاتا،ورنہ شکست اس کامقدرہوتی۔ آپ تقریباً فریقِ مخالف سے 50 کامیاب مناظرے کیے جس میں آپ ہمیشہ فاتح رہے،اور شکست مخالفین کامقدر رہی۔ آپ کی ایک خاص یہ بات بھی تھی کہ پورے برصغیر (پاک و ہند)میں آپ کو جب بھی مناظرہ کے لیے بلایاجاتا ،آپ ہمیشہ مناظرے کے لیے تیار رہتے تھے۔
خدمات
ترمیمآپ نے مسلک اہل سنت و جماعت کے تحفظ کے لیے تحریری اور تقریری کو ششوں میں تمام عمر صرف کی۔ آپ ایک ایسی شخصیت کے حامل تھے جنہیں بلا تخصیص تمام مذاہب باطلہ کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا تھا۔ وسعت علم اور حاضر جوابی میں ان کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی،تقویٰ اور پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ دوران میں تقریر آیات قرآنیہ سے اس کثرت سے استدلال کرتے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ ہر روز قرآن مجید کے پانچ پاروں کی تلاوت اور شب بیدار ی آپ کے معمولات میں سے تھے۔ آپ نے تحریک ِ پاکستان اور تحریک ختمِ نبوت میں بھرپور کرداراداکیا۔
تصنیفات
ترمیموفات
ترمیممولاناعمر اچھروی 2/ذیقعدہ 1391ھ،بمطابق 21/دسمبر1971ء،بروز منگل کو وفات پا گئے۔ مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ ابو البرکات سید احمدنے نماز جنازہ پڑھائی۔[3]