محی الدین قادری
شاہ محی الدین قادری (1889–1947ء) ایک ہندوستانی سنی عالم صوفی، طبیب، محدث قاضی،شاعر، مصنف، خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں، فکر سجاد کے امین اور امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ کے دوسرے امیر شریعت ہیں، امارت شرعیہ کے استحکام میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا، ان کے دور امارت میں فلاحی اور ملی کام خوب کیے گئے۔
امیر شریعت ثانی سید شاہ محی الدین قادری | |
---|---|
امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے دوسرے امیر شریعت | |
پیشرو | بدر الدین قادری |
جانشین | قمر الدین قادری |
برسر منصب 1343 تا 1366ھ | |
ذاتی | |
پیدائش | محی الدین 13 نومبر 1889ء |
وفات | 22 اپریل 1947 | (عمر 67 سال)
مدفن | خانقاہ مجیبیہ سے متصل |
مذہب | اسلام |
قومیت | ہندوستانی |
اولاد | شاہ امان اللہ قادری( بڑے بیٹے) شاہ قمر الدین قادری (بیٹی) شاہ نظام الدین قادری (بیٹی) حافظ شہاب الدین قادری (بیٹی) |
مدرسہ | خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف |
بنیادی دلچسپی | تصوف، شریعت اسلامی، قضا، حدیث، فقہ |
قابل ذکر کام | احوال حضرت سید احمد بن ادریس اویسی شاذلی |
اساتذہ | شاہ بدر الدین قادری سید احمد مکی عبد الرحمن ناصر گنجی عبد اللہ نقشبندی وغیرہم |
مرتبہ | |
شاگرد
|
ابتدائی و تعلیمی زندگی
ترمیمولادت
ترمیمسید شاہ محی الدین قادری سید شاہ بدر الدین قادری امیر شریعت اول کے بڑے صاحب زادے تھے۔ ان کی ولادت پھلواری شریف پٹنہ میں 30 ذی الحجہ 1296ھ مطابق 13 نومبر 1889ء کو ہوئی۔[1]
تعلیم و تربیت
ترمیمابتدائی تعلیم اپنے والد شاہ بدر الدین قادری سے حاصل کی، فارسی مولوی محمد کامل پھلواری کے پاس پڑھی، عربی کی ابتدائی تعلیم سید صمید الحق پھلواری سے حاصل کی، متوسطات اور اکثر انتہائی کتابیں عبد اللہ رام پوری اور عبد الرحمن ناصری گنجی سے پڑھیں، عبد الرحمن ناصری گنجی کا تعلیمی سلسلہ یوں ہے کہ وہ عبد العزیز امروہوی کے شاگرد تھے، جنھیں علومِ عقلیہ میں فضل حق خیرآبادی اور علم حدیث میں مولانا عبد الغنی مجددی مہاجر مدنی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ 11 ربیع الاول 1318ھ کو علومِ متداولہ و نصاب نظامیہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل ہوئی اور دستار فضیلت سر پر باندھی گئی۔[1]
بیعت و خلافت
ترمیمانھوں نے بیعت شاہ بدر الدین قادری کے ہاتھ پر کی اور طویل عرصے تک سلوک و طریقت میں مصروف رہے، باطنی تکمیل کے بعد 1328 ھ میں تلقین صوفیا کی سند دی اور اپنے تمام سلاسل کا مجاز مطلق بنایا، علاوہ ازیں شیخ احمد مکی اور شیخ عباس رضوان سے بھی جملہ سلاسل طریقت کے مجاز ہوئے، تکمیل طریقت کے بعد شیخ نے ارشاد ہدایت اور مریدین و مسترشدین کی تعلیم و تلقین بھی ان کے ذمہ کر دیا تھا۔[2]
خانقاہ مجیبیہ کی جانشینی
ترمیم19صفر 1343ھ جمعہ کو حضرت پیر و مرشد کے فاتحہ چہارم کے دن وہ جانشیں کیے گئے اور سجادہ مجیبیہ جنیدیہ کی زینت بنے۔[2]
عملی زندگی
ترمیمتحصیل علم ظاہری و باطنی کے بعد ایک مدت تک تدریس کا سلسہ جاری رکھا، پھر تحریک خلافت کے زمانہ سے قومی و ملی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا، جلسوں میں تقریریں بھی کیں، مدرسہ حمیدیہ دربھنگہ و مدرسہ فیض الغرباء آرہ کے جلسۂ دستار بندی میں اور انجمن حمایت اسلام مونگیر و انجمن محمدیہ پٹنہ کے تبلیغی جلسوں میں دینی و مذہبی تقریریں کیں اور جمعیت علما، و خلافت کمیٹی کے اجلاس عام میں پرجوش سیاسی تقریریں کیں، انجن محمدیہ پٹنہ کے وہ سر پرست تھے اور اس کے تبلیغی کاموں میں برابر حصہ لیتے رہے۔[2]
بہ حیثیت امیر شریعت ثانی
ترمیمشاہ بدر الدین قادری کی وفات کے بعد جمعیت علما اور امارت شرعیہ کے ارکان نے 9 ربیع الاول 1344ھ میں خانقاہ مجیبیہ کے اندر ایک عام جلسہ منعقد کر کے ان کو امیر شریعت ثانی منتخب کیا اور چار ہزار افراد نے اس وقت سمع و طاعت کی بیعت کی۔[3]
دیگر خدمات
ترمیمخانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں کی حیثیت سے وہ مسلمانان ہند کے مذہبی و روحانی معالج اور امیر شریعت کی حیثیت سے مسلمانان بہار کی دینی و دنیاوی تنظیم کے ذمہ دار تھے۔ چنانچہ 23 سال تک مسند سجادگی سے تصوف و طریقت کی اشاعت کرتے رہے، 33 سال تک منصب امیر شریعت سے قوم و ملت کی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی شخصیت فقر و عرفان اور مجاہدات میں اس دور میں بے مثل تھی۔ [2]
ذاتی زندگی
ترمیمان کی دو شادیاں ہوئیں۔ پہلی شادی سے اولاد زندہ نہ رہی۔ دوسری شادی امہجر شریف میں تبارک حسین قادری کی صاحب زادی سے ہوئی۔ ان سے چار لڑکی ہوئیں: بڑی لڑکی مولوی عز الدین سلیم پھلواری کی زوجیت؛ دوسری لڑکی مولوی سید محمد کے عقد میں؛ تیسری لڑکی سید شاه عون احمد علی قادری اور چوتھی لڑکی شاہ سلمان کے عقد میں آئیں۔ صرف ایک صاحب زادہ سید شاه محمد امان اللہ قادری تھے۔[2]
وفات
ترمیم29 جمادی الاولی 1366 ھ مطابق 22 اپریل 1947ء بروز سہ شنبہ ان کا انتقال ہوا۔ اور خانقاہ مجیبیہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔[4]
آرام گاہ
ترمیمحوالہ جات
ترمیممآخذ
ترمیم- ^ ا ب قاسمی 1995، صفحہ 307
- ^ ا ب پ ت ٹ نیر، سید شاہ محمد شعیب (1947)۔ "شاہ محی الدین قادری"۔ آثارات پھلواری شریف موسوم بہ اعیان وطن (پہلا ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبہ نشر و اشاعت خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پ۔ ص 98
- ↑ قاسمی، ثناء الہدیٰ (29 جولائی 2021ء)۔ "امیر شریعت ثانی:محی الملۃ و الدین حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری"۔ اشتراک۔ 2023-06-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-06-11
- ↑ قاسمی 1995، صفحہ 308
کتابیات
ترمیم- قاسمی، ابو الکلام (1995)۔ "سید شاہ محی الدین قادری جعفری پھلواری"۔ تذکرہ علمائے بہار (پہلا ایڈیشن)۔ سیتامڑھی: شعبہ نشر و اشاعت جامعہ قاسمیہ بالا ساتھ