بدر الدین قادری

ہندوستانی سنی عالم، صوفی اور امیر شریعت اول

بدر الدین قادری (1851–1924ء) ایک ہندوستانی سنی قادری، عالم، مصنف، صوفی، خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں اور امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے پہلے امیر شریعت تھے۔ انھوں نے تحریک خلافت اور قیام امارت میں اہم کردار ادا کیا۔

امیر شریعت اول

سید شاہ بدر الدین قادری
امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے پہلے امیر شریعت
برسر منصب
1339ھ تا 1343ھ
جانشینمحی الدین قادری
ذاتی
پیدائش
بدر الدین

27 اپریل 1851ء
وفات14 ستمبر 1924(1924-90-14) (عمر  73 سال)
مدفنخانقاہ مجیبیہ سے متصل
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
اولادمحی الدین قادری(امیر شریعت ثانی)
قمر الدین قادری(امیر شریعت ثالث)
شاہ نظام الدین قادری
شہاب الدین قادری
شہریت مغلیہ سلطنت
 برطانوی راج
مدرسہخانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف
حرمین شریفین
بنیادی دلچسپیتصوف، شریعت اسلامی، قضا، حدیث، فقہ
قابل ذکر کاملمعات بدریہ، احوال مولائے کائنات، الوسیلہ، رویت ہلال
اساتذہصالح عبد اللہ سناری
سید محمد بن سید احمد رضوان
ابنِ حضیر مدنی
عبد الجلیل بن عبد السلام
محمد فالح ظاہری
وغیرہم
مرتبہ

پیدائش

ترمیم

سید شاہ بدر الدین بن سید شاہ شرف الدین قادری 27 جمادی الاخری 1267ھ (مطابق 27 اپریل 1851ء) کو خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف، پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ [1]

تعلیم و تربیت

ترمیم

ابتدائی تعلیم اپنے والد شرف الدین قادری سے حاصل کی اور علوم متداولہ اور درسی کتابیں اپنے پیر اور خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں شاہ علی حبیب نصر قادری سے پڑھیں، پھر 1887ء میں حرمین شریفین کا سفر کیا اور آل احمد محدث مہاجر مدنی، عبد اللہ صالح سناری، سید محمد بن سید احمد رضوان، عبد الرحمن بن ابو حضیر مدنی، عبد الجلیل بن عبد السلام، محمد فالح ظاہری، عبد الحئی کتانی جیسے محدثین و شیوخ حرمین سے احادیث کی کتابوں کا درس لیا اور مہارت حاصل کی، اسی سفر میں امداد اللہ مہاجر مکی کی جانب سے سلسلہ چشتیہ صابریہ اور حزب البحر کی اجازت عطا ہوئی۔[2]

اجازت و خلافت

ترمیم

یہ شاہ محمد حبیب علی نصر سے 1283ء میں بیعت ہوئے، 1290ء میں ان کے شیخ نے قادریہ سلسلے میں اجازت و خلافت مرحمت فرمائی اور سلسلہ چشتیہ صابریہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے اجازت عطا ہوئی۔[1]

امارت شرعیہ

ترمیم

ابو المحاسن محمد سجاد نے امارت شرعیہ کا خاکہ تیار کیا، اکابر علما، خانقاہ کے سجادہ نشینوں، دانشوروں اور ابوالکلام آزاد سے نجی ملاقات کرکے قیام امارت شرعیہ کے لیے راہ ہموار کی، معاملہ ابوالکلام آزاد کی رانچی نظر بندی کی وجہ سے ٹلتا رہا، 1920ء میں یہ نظر بندی ختم ہوئی، تو انھوں نے 19 شوال 1339ھ مطابق 26 جون 1921ء کو محلہ پتھر کی مسجد پٹنہ میں اس سلسلے کی میٹنگ بلائی، ابوالکلام آزاد کی صدارت میں ہوئے اس اجلاس میں مختلف مکتب فکر کے کم و بیش پانچ سو علما و دانشور جمع ہوئے، امارت شرعیہ کے قیام کے فیصلے کے بعد مسئلہ امیر شریعت کے انتخاب کا تھا، محمد علی مونگیری نے بدرالدین قادری کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس منصب جلیلہ کو قبول کر لیں؛ چنانچہ مونگیری کے اصرار پر بدرالدین قادری نے اس ذمہ داری کو قبول کیا اور پہلے امیر شریعت کی حیثیت سے کام شروع کیا، مونگیری کی خاص توجہ بدر الدین قادری کی ہدایات اور نائب امیر شریعت ابو المحاسن محمد سجاد کی عملی جد و جہد کے نتیجہ میں امارت شرعیہ نے عوام و خواص میں کم وقت میں مضبوط پکڑ بنالی۔[2][3]

ملی خدمات

ترمیم

وہ بڑے متبحر عالم تھے، حدیث کی سند شیوخ حرمین سے حاصل کی تھی، انھوں نے اپنے وقت میں خانقاہ میں درس قرآن، درس حدیث اور درس تصوف کا سلسلہ شروع کیا اور جاری رکھا، جس سے علمی میدان میں بھی خانقاہ کا فیض عام لوگوں تک پہنچا، دار العلوم مجیبیہ سے آج بھی اس کا فیضان جاری و ساری ہے۔ ان کو اللہ نے تصنیف و تالیف کا بھی اچھا ملکہ عطا فرمایا تھا، لمعات بدریہ کے نام سے ان کے رسائل و مکاتیب کا ضخیم مجموعہ موجود ہے،چار جلدیں چھپ چکی ہیں، بقیہ ابھی مخطوطہ کی شکل میں محفوظ ہے، اس مجموعہ میں مکاتیب کے علاوہ مختلف موضوعات پر تحقیقی مضامین ہیں،[4] اس مجموعہ کے علاوہ بھی بعض رسائل کا پتہ چلتا ہے، جن میں رویت ہلال کے موضوع پر ایک رسالہ مطبوعہ ہے، جو انتہائی مدلل ہے۔ امیر شریعت کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ساتوں امیر شریعت میں ان کو سب سے کم وقت ملا۔لیکن اس کم وقت میں ہی انھوں نے بانی امارت شرعیہ ابو المحاسن محمد سجاد ،اپنے صاحبزادہ محی الدین قادری اور دیگر رفقا امارت شرعیہ کی مدد سے پورے بہار میں نظام امارت کو پھیلایا۔دارالقضا اور مکاتب کے نظام پر توجہ دی اور فکری طور پر امارت کے پیغام کو گاءوں گاؤں پہنچایا گیا جس سے اگلے امرا کے دور میں کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملی۔[3]

اولاد

ترمیم

ان کے چار لڑکے شاہ محی الدین قادری (امیر شریعت ثانی)، شاہ قمر الدین قادری (امیر شریعت ثالث)، شاہ نظام الدین قادری اور حافظ شہاب الدین ہوئے۔[5]

وفات

ترمیم

ان کا انتقال پچھتر سال کی عمر میں 16 صفر 1343ھ مطابق 14 ستمبر 1924ء کو ہوا، جنازہ کی نماز ان کے بڑے صاحبزادہ سید شاہ محی الدین قادری نے پڑھائی۔باغ مجیبی نزد خانقاہ مجیبیہ میں تدفین عمل میں آئی، [6]

مزار

ترمیم
 
خانقاہ مجیبیہ سے متصل شاہ بدر الدین قادری کا مزار

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مفتاحی، مفتی ظفیر الدین (1974)۔ "پہلے امیر"۔ امارت شرعیہ-دینی جد و جہد کا روشن باب۔ پٹنہ: مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف۔ ص 76
  2. ^ ا ب مفتی ثناء الہدی قاسمی (22 جولائی 2021ء)۔ "امیر شریعت اول: بدرالکاملین حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری"۔ khabar olny۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-22
  3. ^ ا ب قاسمی، ابو الکلام (1995)۔ "شاہ بدر الدین قادری"۔ تذکرہ علمائے بہار (پہلا ایڈیشن)۔ سیتامڑھی: شعبہ نشر و اشاعت جامعہ قاسمیہ بالا ساتھ۔ ص 64–65
  4. قادری، شاہ بدر الدین (2012ء)۔ احوال مولائے کائنات (پہلا ایڈیشن)۔ پٹنہ: دار الاشاعت خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف
  5. نیر، سید شاہ محمد شعیب (1947)۔ "شاہ بدر الدین قادری"۔ آثارات پھلواری شریف موسوم بہ اعیان وطن (پہلا ایڈیشن)۔ پٹنہ: شعبہ نشر و اشاعت خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پ۔ ص 96
  6. رحمانی، مولانا عبد الصمد (1948ء)۔ "حضرت امیر شریعت کی علالت:وفات تجہیز و تکفین– عبد الصمد رحمانی"۔ تاریخ امارت۔ پٹنہ: مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف۔ ص 89–90 {{حوالہ کتاب}}: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے: |1= (معاونت)