سید مرتضی حسین نقوی
سید مرتضی حسین نقوی صدرالافاضل
سید مرتضی حسین نقوی صدرالافاضل

معلومات شخصیت
پیدائشی نام سید مرتضی حسین نقوی
پیدائش 1 اگست 1923(1923-08-01)
وفات 23 اگست 1987(1987-80-23) (عمر  64 سال)
لاہور، صوبہ پنجاب، پاکستان
رہائش لکھنؤ،لاہور
دیگر نام فاضل لکھنوی
نسل سید نقوی
مذہب اسلام
اولاد مولانا ڈاکٹر سید حسین مرتضی نقوی، سید جعفر مرتضی نقوی، سیدہ نرجس مرتضی، ڈاکٹر سید باقر مرتضی نقوی، سید عابد مرتضی نقوی، سید کاظم مرتضی نقوی
والدین مولانا سید سردار حسین نقوی ( والد) (father)
عملی زندگی
تعليم صدرالافاضل
مادر علمی سلطان المدارس، لکھنؤ
پیشہ عالم دین، ادیب، محقق، مورخ، سوانح نگار، ماہر کتابیات
تنظیم کتابخانہ مرتضوی
کارہائے نمایاں کلیات غالب فارسی (صدی ایڈیشن)، غالبیات، مطلع انوار
ویب سائٹ
ویب سائٹ http://ml.com.pk/

پیدائش

ترمیم

مولانا سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی ؒ بروز بدھ ، 18 ذی الحجہ 1341 ھ یکم اگست 1923ء کو ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

خاندان

ترمیم

آپ کے والد کا نام مولانا سید سردار حسین نقوی المعروف بہ سید قاسم آغا (م: 1947 ء مطابق 1366ھ )تھا۔ مولانا مرحوم کے جدِ بزرگوار مولانا سید اعجاز حسین صاحب ؒ فاضل، عالم اور عابد شخص تھے ان کے والد جناب میر عبد اللہ صاحب تحّیر بارودخانہ گنج میں صاحب مکانات تھے جنگِ آزادی (1857ء مطابق 74۔1273ہجری) میں زوال آیا اور سب کچھ لٹ گیا۔ آپ کے والد فارسی کے فاضل اور نواب منش بزرگ تھے۔ ان کی تمنا تھی کہ اجداد کی طرح مولانا مرحوم کو بھی علم دین کی تعلیم دیں۔[1] انھوں نے اگست 1947 ء میں سادات بارہہ کے مشہور علمی خاندان کے فقیہ و محدث علامہ سید زاہد حسین بارھوی ؒ (6 ذی قعدہ 1311 ھ بمطابق 22 مئی 1893 ۔ یکم جمادی الاولیٰ 1394 ھ بمطابق 24 مئی 1974 ء) کی بڑی صاحبزادی صاحب نفوس قدسیہ سیدہ عابد خاتون ؒ سے شادی کی۔[2]

علمی مراتب

ترمیم

آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ عابدیہ کٹرہ ابو تراب خان، لکھنؤ میں حاصل کی۔ 5 جون 1933ء مطابق صفر المظفر 1352ھ کو سلطان المدارس لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ چودہ سال تک علوم آل محمد ؑ حاصل کرکے اسی مدرسے سے صدرالافاضل اور اسی کے ساتھ سلطان المدارس کے ہم پلہ مدرسے، مدرسۂ ناظمیہ سے ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ یہ دونوں اسناد اس عہد میں حوزۂ علمیۂ لکھنؤ کی اعلیٰ ترین اسناد تھیں ۔ ۔

وہ ایک ادیب تھے اور ان کا میدان غالب دہلوی ہے ۔ وہ علمی اور تحقیقی کاموں کے ساتھ سیاسی، رفاہی اور اجتماعی معاملات میں بھی سرگرم عمل رہتے تھے۔[3]

کتابخانہ مرتضوی

ترمیم

ان کا ایک چھوٹا سا گھر تھا اور گھر کے ایک کمرے میں اپنے ہم مکتب دوست مولانا محسن علی عمرانی (ڈیرہ اسماعیل خان۔ صوبہ سرحد) کے ساتھ مل کر نایاب اور قدیم کتب پر مبنی ایک کتب خانہ قائم کیا۔ اسی کمرہ میں فاضل لکھنوی اور مولانا محسن علی عمرانی کتابوں میں گھرے بیٹھے رہتے تھے۔ وہی کمرہ ملاقات کا تھا[4] آپ کے انتقال کے بعد، آپ کے بڑے بیٹے اور علمی وارث، سید حسین مرتضی نقوی صاحب نے، مرحوم کی وصیت کے مطابق ان کے کتابخانہ کو ایک عمومی، تحقیقاتی کتابخانہ کی صورت میں قائم رکھا۔ جس سے آج بھی کراچی میں اہل علم و مطالعہ استفادہ کرتے ہیں۔ اس کتابخانہ میں اس وقت تقریبا 50 ہزار کتابیں موجودہیں، جس میں نہایت اہم اور نادر کتابیں اور قلمی نسخے شامل ہیں۔[5]

اساتذہ

ترمیم

آپ کے بعض اہم اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:

  • نادرۃ الزمن سید ابن نونہروی
  • مرزا سید احمد حسین صدرالافاضل بن سید کاظم حسین، مقدس منطقی ؒ 1310۔1385ھ
  • آیت اللہ مفتی سید احمد علی بن مفتی سید محمد عباسؒ 1303۔1388
  • سید سبط حسن رضوی لکھنوی  بن سید فیض الحسن رضوی لکھنوی ؒ 1296۔ 1354ھ
  • سید صغیر حسین بن سید ضمیر حسین ؒ 1310۔ 1377ھ
  • سید ضیاء الحسن بن سید نجم الحسن ؒ 338ا۔1389ھ
  • سید عبدالحسن بن شاہ منت حسین ؒ 1310۔1381ھ
  • علامہ سید عدیل اختر بن سید مبارک واسطیؒ 1310۔1381ھ
  • آیت اللہ سید کلب حسین، عمدۃ العلماء  بن قدوۃ العلماء سید آقا حسینؒ 1311۔1383ھ
  • آیت اللہ سید محمد بن سید محمد باقر رضویؒ 1316۔ 1394ھ
  • آیت اللہ سید محمد عرف میرن صاحب بن سید محمدتقی ؒ 1313۔ 1380ھ
  • سید محمد حسن بن سید محمد ہادی رضوی ؒ 1325۔1400ھ
  • سید محمد حسین بن سید محمد ہادی رضویؒ 1328۔1385ھ
  • آیت اللہ سید محمد سعید سعید الملت بن ناصر الملت سید ناصر حسین 1333۔1378ھ
  • آیت اللہ محمد نصیر نصیر الملت بن ناصرالملت سید ناصرحسین ؒ 1312۔1386ھ
  • آیت اللہ سید محسن نواب بن سید احمد نواب ؒ 1322۔1389ھ

علمی اسناد

ترمیم

مرحوم نے جو علمی اسناد حاصل کیں، ان کی مختصر فہرست یہ ہے:

  • مولوی (عربی) الہ آباد بورڈ، 1941ء مطابق 1360ھ
  • عالم (عربی) الہ آباد بورڈ، 1942ء مطابق 1361ھ
  • فاضل ادب (عربی) لکھنؤ یونیورسٹی، 1944ء مطابق 1363ھ
  • سند الافاضل (عربی) سلطان المدارس، لکھنؤ 1945ء مطابق 1364ھ
  • عمادالادب (عربی) شیعہ کالج،لکھنؤ، 1946ء مطابق 1365ھ
  • دبیر کامل (عربی) لکھنؤ یونیورسٹی، 1946ء مطابق 1365ھ
  • صدر الافاضل (عربی) سلطان المدارس، لکھنؤ، 1947ء مطابق 1366ھ
  • ممتاز الافاضل (عربی) سلطان المدارس، لکھنؤ، 1947ء مطابق 1366ھ
  • عمادالکلام (عربی ) شیعہ کالج،لکھنؤ، 1948ء مطابق 1368ھ
  • مولوی فاضل (عربی) پنجاب یونیورسٹی، لاہور، 1952ء مطابق 1371ھ
  • منشی فاضل (فارسی) پنجاب یونیورسٹی، لاہور، 1953ء مطابق 1372ھ
  • فاضل اُردو (اُردو) پنجاب یونیورسٹی، لاہور، 1959ء مطابق 1378ھ

نقل روایت کے اجازے

ترمیم

مولانا مرحوم کو بعض علما نے اجازہ دیے تھے

ہندوستان سے ہجر ت

ترمیم

24۔ رمضان المبارک 1369ھ مطابق 10۔ جولائی 1950 ء کو پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا مستقر بنایا

ادارات، مؤسسات اورتنظیموں کی تاسیس و تنظیم

ترمیم

مولانا مرحوم نے پاکستان میں بہت سے تحقیقی، علمی اور رفاہی اداروں کی تاسیس و تنظیم میں حصہ لیا، ان کی رہنمائی کی اور سرپرستی کے فرائض انجام دیے جن میں سے بعض بشرح ذیل ہیں:

  • انجمن معین الاموات لاہور
  • جامعة المنتظر لاہور
  • مظفر المدارس مدرسة الواعظین لاہور
  • امامیہ قرأت کالج لاہور
  • آئی ایس او پاکستان (امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان)
  • آئی اور پاکستان (امامیہ آرگنائزیشن پاکستان) شیعہ مطالبات کمیٹی
  • تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
  • ادارہ تعلیمات اہلبیت کراچی
  • مفیدیہ سیار لائبریری،راولپنڈی
  • ادارہ ترویج علوم اسلامیہ، کراچی
  • ادارہ درس عمل
  • ادارہ تعلیمات الہیہ، راولپنڈی
  • امامیہ مشن، لاہور
  • دارالثقافة الاسلامیة ،کراچی
  • شیعہ مطالبات کمیٹی

تحقیقی اداروں سے وابستگی

ترمیم

آپ نے نہ صرف اپنے تاسیس کردہ مؤسسوں اور تنظیموں کی سرپرستی کی، بلکہ دوسرے اداروں سے باہمی روابط استوار کرکے ان سے ہم آہنگی اور وابستگی کا ثبوت بھی فراہم کیا نیز ہر طریقہ سے ان کی دلجوئی فرمائی اور پیش آنے والی مشکلوں کو حل فرمایا۔ جن اداروں سے آپ کی وابستگی رہی اور ان کے اسامی بشرح ذیل ہیں:

  • غالب اکیڈمی
  • ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور
  • مجلس ترقی ادب، لاہور
  • ادارہ دائرة المعارف الاسلامیة ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور
  • مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد
  • کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، قمِ ایران
  • اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور
  • پنجاب یونیورسٹی لائبریری، لاہور
  • پنجاب پبلک لائبریری، لاہور
  • شاہی قلعہ لاہور میوزیم، لاہور
  • عجائب خانہ، لاہور
  • اقبال اکیڈمی، لاہور

تالیفات و تصنیفات

ترمیم

کتابیں

ترمیم

تفسیر قرآن

ترمیم

مولانا مرحوم نے لاہور میں مختلف مقامات پر 25 برس تک تفسیر قرآن کے دروس دیے۔ تفسیر قرآن میں مولانا کا مطالعہ بہت وسیع اور نظربہت گہری تھی۔ تفسیر قرآن کے تاریخی ارتقا وتکامل پر ان کی نظر غائر تھی۔ اسلوب تفسیر ان کی رائے مستند تسلیم کی جاتی تھی۔ اس کے باوجودتفسیر کے میدان میں وہ قلم اُٹھاتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ان کاکہناتھاکہ تفسیر جیسے اہم موضوع پر پڑھے لکھے آدمی کو ساٹھ برس کے سن کے بعد قلم اٹھانا چاہیے۔ یہ وہ وقت ہوتاہے کہ جب انسان کی فکر پختہ اور مطالعہ عروج پر پہنچ چکاہوتاہے۔ تفسیر پرانہوں نے جوکچھ لکھا ان میں سے کچھ کام یہ ہیں۔

  1. انوار الآیات: یہ قرآن کریم کی آیتوں کی مختصر اور مفید تفسیر ہے۔ اس کو مولانا مرحوم نے جوانوں کے روزمرہ مطالعہ کے لیے تحریرفرمایا۔ اس تفسیر کے مخاطب عام طورسے ہائی اسکول اورانٹرکالج کے نوجوان طلبہ و طالبات ہیں۔(مطبوعہ)
  2. دستور اخلاق: سورہ حجرات کی مختصر اور مفید تفسیر۔ اسکول اور کالج کے نوجوانوں کے روزمرہ مطالعہ کے لیے لکھی گئی۔ (مطبوعہ)
  3. تفسیر مرتضوی: تفسیر قرآن پر مولانا مرحوم کا یہ کام اردو زبان میں اپنی نوعیت کا منفرد، سب سے پختہ اور فکرانگیز کام ہے جوانہوں نے اپنے نظریہ کے مطابق اپنی برکت عمر کے ساٹھویں سال کے اختتام پر شروع کیا لیکن ابھی وہ سورہ مائدہ کی تفسیر ہی مکمل کرپائے تھے کہ محبوب حقیقی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے دربار میں حاضر ہو گئے اس وجہ سے ان کی یہ تفسیر مکمل نہ ہوپائی۔ مکمل تفسیر نہ ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت ، موضوعات کے احاطہ، معلومات کی وسعت و گہرائی نیز فکری رچاؤ کے لحاظ سے یہ اُردو زبان میں بے مثال تفیسر ہے۔

حدیث

ترمیم

مولانا مرحوم کے مطالعات میں حدیث کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔ قرآن حکیم کے بعد حدیث ان کے مطالعہ کا محور، ان کے فکرونظر کی بنیاد پر نیز ان کے عمل کی اُساس تھی اس لیے مرحوم نے حدیث پر اُردو اور عربی دونوں زبانوں میں بہت اہم اور وقع تحریری کام انجام دےئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

  1. تاریخ تدوین حدیث و تذکرہ محدثین شعیہ: عہد نبوی سے لے کر علامہ مجلسی کے دور تک مختلف ادوار میں حدیث کے تحریری ذخیروں، حدیث مکتوب کے مجموعوں کی حفاظت اور نقل وکتابت و تدوین حدیث کے ارتقائی مراحل کے جائزہ پرایک مضبوط اور تاریخی دستاویز کے طور پر لکھی جانے والی یہ کتاب اس موضوع پر پہلی مطبوعہ دستاویز ہے۔
  2. کتاب المومن: جن کتابوں کو تاریخ میں اصول اربعاۃ کے نام سے پہنچاناجاتاہے۔ کتاب المومن انہی میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب تیسری صدی ہجری کی تحریر ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جواحادیث کے مصادراولیہ میں شمارہوتی ہے۔ یہ کتاب مخطوط طورپردنیا کے بہت سے کتابخانوں میں موجود تھی لیکن محققین اسے منصۂ شہود پر نہیں لائے تھے۔
  3. نہج البلاغہ، ترجمہ و شرح: حدیث کے ذیل میں مولانا مرحوم نے نہج البلاغہ کے ترجمہ اور شرح پر بھی کام کیا۔ ان میں سے ایک کام جو مولانا مرحوم نے مولانا رئیس احمد جعفری اور مولانا سید نائب حسین نقوی مرحومین کے ساتھ مل کر گروہی طور پر انجام دیا وہ مرحوم کی زندگی ہی میں شائع ہوا اور مقبول عام بھی ہوا۔ اب تک اس کے تقریباً چالیس ایڈیشن چھپ کر ختم ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ مولانا مرحوم نے نجی طور پر نہج البلاغہ کا ترجمہ اور شرح تحریر فرمائی جو مخطوط حالت میں موجودہے۔

  1. نہج من بلاغة الامام الصادق: حدیث کے ذیل میں امام جعفر صادق ؑ کے خطبوں کا ترجمہ اور شرح عربی متن کے ساتھ تحریراور شائع کرنا بھی مولانا مرحوم کاایک وقیع کارنامہ ہے۔
  2. صحیفہ علویہ، ترجمہ وشرح: ہدیہ نیاز کے نام سے مولانامرحوم نے حدیث کے ذیل میں حضرت علی ؑ کی دعاؤں کے مجموعہ صحیفہ علویہ کے متن پر تحقیق، ترجمہ اور شرح کے ساتھ ایک مضبوط مقدمہ تحریرفرما کر شائع کروایا۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اب تک اس کتاب کے بیسوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

ا [علامہ مرحوم کے ترجمہ میں بے پناہ مہارت اور خوبیاں موجود ہیں: 1۔عربی عبارت کا اردو ترجمہ دوسرے ترجموں کی طرح طولانی نہیں ہے 2۔ اردو عبارت اتنی ہی مختصر اور جامع ہے جتنی عربی 3۔ اردو ترجمہ آسان، شگفتہ، عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ بلیغ اور رسا بھی ہے 4۔ ترجمہ پڑھتے ہوئے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہے 5۔ اردو عبارت میں عربی مزاج اور دعا کے مطالب کی گہرائی اور گیرائی نیز دعا کے مزاج کو پوری طرح سے محفوظ رکھا گیا ہے 6۔ اس کتاب کو ان کے فرزند حقیر ( سید حسین مرتضی نے بائیبل پیپر بر بڑے اہتمام سے اعلی معیار پر، صفر 1441ہجھری مطابق ستمبر 2018 عیسوی می کتابخانہ مرتضوی کراچی پاکستان سے شایع کر کے بلا معاوضہ تقسیم کیا ہے اسی طرح مرحوم ایک چاہنے والے نے اسے ہندوستان سے بھی نسبت بہتر انداز میں شائع فرمایا ہے اس وقت اسک سنہ طباعت یاد نہیں ہے

  1. صحیفہ کا ملہ، انتخاب، ترجمہ وشرح: صحیفہ کاملہ حدیث کی کتابوں میں امام زین العابدینؑ کی دعاؤں کے مجموعہ دعاؤں کے مجموعہ پرمشتمل مستند ترین کتاب ہے۔ مولانا مرحوم نے اس کتاب مین سے 32 دعاؤں کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ مرتب فرما کر ترجمہ اور شرح کے ساتھ شائع فرمایا۔]
  2. چہل حدیث: حدیثِ نبوی پر عمل نیز، علما٫ اسلام کی سنت کے احیا٫ کے طور پر مولانا مرحوم نے چالیس ایسی حدیثوں کے متن اور ترجمہ پر مشتمل کئی کتابیں تحریر فرمائیں جن میں سے ایک چہل حدیث کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور باقی تحریری طور پر مرحوم کے ذخائر میں موجود ہیں۔
  3. کتاب المقتبس (النخبة من احادیث النبی الخاتم و الائمة): اس مجموعے میں مولانا مرحوم نے الکافی کی طرز پر علمِ اصول دین، امامت، اخلاقیات اور فقہی موضوعات پر ان تمام احادیث کو جمع فرمایا ہے جو ان کے فقہی فتاویٰ کی بنیاد تھیں، نیز ان کے نزدیک اصول حدیث کے معیار پر قابل وثوق و اطمینان تھیں۔ یہ کام بھی مخطوط طور پر ان کے ذخیرۂ علمی کی زینت ہے۔
  4. اوصاف حدیث: حدیث کے میدان میں احادیث کی تحقیق اور درجہ بندی کے موضوع یعنی علم درایت پر علامہ بہائی کی مستند ترین کتاب الوجیزہ کو بنیاد بنا کر مولانا مرحوم نے ایک انتہائی اہم اور فنی دستاویز تحریر فرمائی ہے جو دو مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب فن درایت میں ایک بنیادی متن اور درسی کتاب کی حیثیت کی حامل ہے۔
  5. عزیزہ فی شرح الوجیزہ: علم درایت پر علامہ بہائی کی کتاب الوجیزة پرمولانا مرحوم نے عربی زبان میں بھی ایک مضبوط شرح تحریرفرمائی جس کا نام عزیزہ فی شرح الوجیزہ رکھا۔ یہ کتاب بھی مخطوط صورت میں محفوظ ہے۔

[علامہ صدر الافاضل مرحوم کے تالیفات و تصنیفات کی تعداد 300 کسے زیادہ ہے جن میں سے 100 عدد شایع ہو چکی ہیں باقی مرحوم کے کتابخانہ بنام کتابخانہ مرتضوی، کراچی پاکستان میں محفوظ ہیں۔ یہ عربی فارسی اور اردو زبان میں تحریر فرمائی گئی ہیں۔ کچھ کتابیں مفقود ہیں۔ اس کے علاوہ مرحوم کے ہزاروں مقالات پاکستان، ہند، ایران، لبنان،عراق اور دنیا کے مختلف علمی تحقیقی اور مذہبی مجلوں میں شایع ہوئے ہیں۔ شاگرد: علامہ مرحوم عربی فارسی اردو ادب، تاریخ، فقہ، تفسیر، مختلف اسلامی علوم اور اپنے عہد کی سیاست ہر گہری نظر رکھتے تھے اور ان تمام میدانوں میں شاگرد تربیت فرمانے میں انتہائی خلوص اور عرق ریزی کے ساتھ محنت فرماتے تھے۔ اس لیے مختلف علمی اور عملی میدانوں میں ان کے شاگردوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ فرزند آیت اللہ علامہ سید مرتضی حسین صدرالافاضل علیہ الرضوان سید حسین مرتضی 19 مارچ 2023 کربلاء]

سیرت

ترمیم

سیرت نبی کریم ﷺ اور اہلبیت اطہار نہ صرف یہ کہ مولانا مرحوم کا اوڑھنا بچھونا اور محورمطالعہ تھا بلکہ یہ ان کی عملی زندگی ، بنیاد اور ان کا اسوہ کامل بھی تھا۔ اس لیے اس موضوع پر مولانا مرحوم نے اُردو دائرہ المعارف میں تحریرکئے جانے والے مقالات کے علاوہ مستقل طور پر بھی تحریری کام انجام دیے۔ اس میں مولانا کے بے شمار علمی و درسی مقالات، تقاریر اور لیکچرز کے علاوہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

  1. خطیب قرآن: سیرت النبی ﷺ پر مولانامرحوم کی یہ کتاب دراصل قرآنی آیات کی بنیاد پر تحریرکی گئی ہے۔ مولانا مرحوم نے اس کتاب میں قرآن حکیم میں سیرت النبی ﷺ سے متعلق آیات کریمہ کومرتب فرماکر ان کی تفسیر میں تاریخ و ثائق وروایات کی روشنی میں سیرت النبی ﷺ پرایک مفصل اور قابل قدر کارنامہ انجام دیاہے جو محققین کے لیے قابل تقلید ہے۔ یہ کتاب بیک وقت قرآن حکیم کی موضوعی تفسیر بھی ہے سیرت النبی ﷺ بھی۔
  2. رسول ﷺ واہلبیت رسول: چودہ معصومین ؑ کی سیرت پر یہ ایک گروہی کام ہے جو مولانا مرحوم نے اپنے معاصر محقق مولانا سید علی جعفری مرحوم کے ساتھ مل کر انجام دیا۔ اس کتاب کی پہلی دوجلدیں جو سیرت النبی ﷺ سے حضرت امام علی رضاؑ تک کی حیات و زندگی پرمشتمل ہیں۔ مولانا سید علی جعفری مرحوم کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ اس کی تیسری جلد جس میں حضرت امام علی نقی ؑ، حضرت امام محمد تقی ؑ، حضرت امام حسن عسکری اور حضرت امام مہدی کا تذکرہ ہے، مولانا مرحوم کے تحقیقی معاملات کا نتیجہ ہے۔ اس تحقیقی اور فکری خدمت میں مولانا مرحوم ائمہ اہلبیت کے دور کے علمی کارناموں نیز ان کے ان خاص شاگردوں کے تذکرہ اور تعارف پرزیادہ زور دیا ہے جو اس عہد میں علمی، فقہی، تفسیری، کلامی اور دوسرے میدانوں میں اہم کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔
  3. آخری تاجدار اُمت: امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف پر اہلسنت و شعیہ مصادر سے تحقیق پرمشتمل مولانا مرحوم کے ایک اُستاد کی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے جو اپنی اہمیت کے سبب کئی بار شائع ہوچکاہے۔

تاریخ وتذکرہ

ترمیم

تاریخ اور تذکرہ جال پر بھی مولانا مرحوم کے کام تاریخی سندکی حیثیت کے حامل ہیں۔ اشارے کے طور پر ہم یہاں ان کے دوکاموں کاتعارف پیش کر رہے ہیں۔

  1. مطلع انوار: یہ کتاب برصغیر میں پاک و ہند کے شیعہ اکابر علما اور ان کے علمی وثقافتی خدمات کے تذکرہ پرمشتمل ہے۔ اس کتاب کی جمع آوری کے سلسلے میں مولانا مرحوم نے انتہائی محنت کی اور شب و روز اس سے منسلک رہے۔ آپ کی یہ کتاب مولانا محمد حسین نوگانوی کی تذکرہ بے بہا فی احوال العلماء نامی کتاب کے بعد اُردو زبان میں مذکورہ موضوع پرانتہائی مفید اور اہم کتاب ہے جو سند کے طور پر ہمیشہ باقی رہے گی۔

مولانا مرحوم کی اس کتاب کا فارسی ترجمہ مطلع انوار ہی کے نام سے بنیاد پژوہشہائے اسلامی آستان قدس رضوی (مشہد مقدس) کی طرف سے شائع ہو چکا ہے، نیز مولانا سعید اختر رضوی مرحوم (م۔2002ء) نے بھی اس کتاب سے متعلق استدراک کے طور پر ایک کتاب تحریرکی ہے جس میں اس کتا ب کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر کریم نجفی ایران میں اس کتاب پرمزید تحقیقات کے ساتھ ایک اور استدراک تحریرفرما رہے ہیں۔

  1. ترجمۂ مقدمہ ابن خلدون: فلسفہ تاریخ میں مقدمہ ابن خلدون ایک سنگ میل کی حیثیت کاحامل ہے۔ مولانامرحوم نے اس کی تاریخی اور فلسفی اہمیت کے سبب اس کا ترجمہ بھی فرمایا جومخلوط حالت میں موجودہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے ادبی اور تحقیقی حلقے مولانا مرحوم کو ادب، لغت اور تاریخ میں آج تک سند مانتے ہیں۔ فارسی، عربی اور اُردو ادب و لغت میں مولانا مرحوم کے علمی اور تدریسی کارناموں کا ذکر مفصل کتاب ہی میں ممکن ہے، اس لیے یہاں ہم اسی بات کے تذکرہ پراکتفاء کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم نے لغت اور ادب و تاریخ میں سینکڑوں مقالات اور سوسے زیادہ کتابیں تحریرفرمائیں جن میں سے چند یہ ہیں:

  • اُردوادب: اُردو ادب میں حیدرعلی آتش، ناسخ، ذوق، مولانا محمد حسین آزاد، مرزا دبیر، میر انیس اور غالب پرمولانا مرحوم کے تحقیقی کام اُردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خصوصاً غالب اور انیس کی صدسالہ برسی کے موقع پر ان کی طرف سے پیش کیے جانے والے تحقیقی مقالات گہرائی و گیرائی کے حامل ہیں۔ یہ اب تک ادبی اور تحقیقی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

ادب میں غالبیات ان کا سب سے پسندیدہ موضوع تھا ۔ غالبیات میں مذہب ، فلسفہ، نثر، نظم ، لغت اور تنقید سبھی کچھ موجود ہے۔ غالباً اس لیے مولانا فاضل لکھنوی نے ادب میں غالبیات کو اپنی محنتوں کا مرکز بنایا۔ انھوں نے غالبیات میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ غالب کے نثری اور شعری متون کی تحقیق وتدوین ، خصوصاً کلیات فارسی نیز خطوط غالب کی تاریخوں کے تعین کے سلسلہ میں فاضل لکھنوی کے کام انفرادی حیثیت کے حامل ہیں۔

  • غالبیات: غالبیات پر مولانا مرحوم کے متعدد تحقیقی مقالات عربی اور اُردو میں چھپے ہوئے موجودہیں۔ اس کے علاوہ مولانا مرحوم نے غالب کے تمام نثری اور شعری متون پر عمیق تحقیقی کام انجام دیاہے جو مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوا جس میں اردوئے معلی، عود ہندی اور کلیات غالب (فارسی) شامل ہیں۔ گرچہ سوانح غالب کے موضوع پر آپ کی کوئی لکھی ہوئی کتاب نظر سے نہیں گذری۔ مگر عود ہندی پر لکھے گئے تعارف نامہ سے پتاچلتاہے کہ اس موضوع پر مولانا نے ایک کتاب لکھی تھی جیسا کہ آپ کوخود تحریر فرماتے ہیں: "سوانح غالب کے بارے میں اس سے زیادہ لکھنا یہاں مناسب نہ تھا ۔ میں نے اس موضوع پر مضبوط کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع ہوگی۔"
  • اس کے علاوہ اُردو ادب میں مولانا مرحوم نے مراثی ، کلیات آتش، مثنویات حالی اور مکاتب محمد حسین آزاد نیز دوسرے شعری اور ادبی متون پر تحقیقی ، تشریح اور تنقیدی کام بھی انجام دےئے جو اُردو ادب میں سندمانے جاتے ہیں۔
  • فارسی ادب: مولانا نے سالہاسال فارسی ادبیات کی تدریس کی۔ انھوں نے فارسی ادب میں قصائد خاقانی رباعیات خیام، قصائد عرفی اور غزلیات نظیری وغیرہ کے ترجمے کیے، شرحیں تحریرکیں۔ ان کی تحریرکردہ کتابیں گلستان ادب اور بوستان ادب سالہا سال پاکستان کے اسکولوں میں فارسی زبان کی درسی کتابوں میں شامل رہی ہیں۔

تصنیفات کی اجمالی فہرست

ترمیم

مطبوعہ کتابیں

ترمیم

یہ مضامین اکثر مجلات میں شائع ہوتی تھیں

  1. آخری تاجدارامت
  2. آیت اللہ خمینی قم سے قم تک
  3. احوال آتشؔ و تعارف کلیات
  4. احوال الرجال الکتاب المومن (عربی)
  5. احوال ورباعیات خیام (فارسی)
  6. اُردو ۔۔۔۔۔۔قواعد وانشاء
  7. اُردو ادب میں شیعوں کا تعمیری و تخلیقی حصہ
  8. اردوئے معلیٰ (صدی ایڈیشن) 3 جلدیں
  9. اسرار الصلوۃ
  10. اسلامیات لازمی برائے جماعت نہم ددہم
  11. اسلامی معاشرہ
  12. اُصول اسلام اور ہم
  13. اقبال کی کہانیاں
  14. امام حسین ؑ کے تعلیمات
  15. انتخاب آتشؔ
  16. انتخاب ذوقؔ
  17. انتخاب ناسخؔ
  18. انقلاب اسلامی معرکہ مشہد و آیت اللہ شیرازی خطوط و سوانح
  19. انقلاب اسلامی کی تحریک
  20. انوار آیات
  21. انیس اورمرثیہ ۔۔۔۔۔۔ زندگی اور پیام
  22. برمحل اشعار
  23. بیان معانی
  24. ہشت مقالہ قزدینی
  25. تاریخ ادب اُردو
  26. تاریخ عزاداری
  27. تذکرہ مرثیہ گویاں
  28. حیات حکیم ؒ
  29. حیات و افکار جمال الدین افغانی
  30. خطیب قرآن
  31. سید چین غالبؔ پر ایک نظر
  32. سردوِ غالبؔ
  33. سفرنامہ حج و زیارت
  34. شرح انتخاب قصائد خاقانی
  35. شرح غزلیات نظیری
  36. شرح قصائد عرفی
  37. صحیفہ کاملہ (انتخاب و ترجمہ)
  38. الفضل الجلی فی حیاۃ محمدقلی (عربی)
  39. قرآنی قاعدہ و دینیات
  40. کلیاتِ آتشؔ
  41. کلیاتِ غالبؔ (3 جلدیں ) (فارسی)
  42. گلستانِ ادب (ساتویں جماعت کے لیے)
  43. گلدستہ افکار
  44. گلستان حکمت
  45. متعہ اور قرآن
  46. مثنوی ابر گہربار (فارسی)
  47. مثنویات حالیؔ
  48. محرم و آداب عزا
  49. مرثیہ، اریخ سے تجربہ کی طرف
  50. مشاعرہ
  51. مطلع انوار
  52. مکاتیب آزادؔ
  53. منتخب مراثی انیسؔ
  54. صحیفہ علویہ
  1. امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ
  2. انتخاب دیوان امیرؔ شاہی سبزواری (فارسی)
  3. انتخاب دیوان فیضیؔ (فارسی)
  4. انتخاب صحیفة الغزال صفیؔ لکھنوی
  5. انتخاب کلیات میرؔ
  6. انتخاب مظہر عشق
  7. انیسؔ کے پانچ قدیم قلمی مرثیے

مفقود کتابیں

ترمیم
  1. تبصرۂ کتب
  2. دفتر خطوط غالبؔ
  3. فواخر العصوص و جواہر الفصوص (اُردو ترجمہ) (مولفہ 15۔ اکتوبر 1949)
  4. غالبؔ، روشنی میں
  5. غالبؔ، نقد و سوانح
  6. مجموعۂ بے رنگ
  7. مشاہیر شعرائے عہد بنی عباس
  8. معدن الجواہر ۔۔۔ ملاطرزی
  9. مقالات آزادؔ

اولاد

ترمیم

پانچ بیٹے ، اورایک بیٹی مولانا مرحوم کے علمی ورثہ کے حامل ہیں:

  • ڈاکٹر سید حسین مرتضیٰ نقوی صدر الافاضل

یہ مولانا مرحوم کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ یہ مرحوم کے دینی اور ادبی علوم و معارف کے وارث ہیں۔ مرحوم کی زندگی میں بھی یہ ان کے علمی معاون اورانکی علمی و ادبی اُمیدوں کا مرکز تھے۔ رحلت کے بعد بھی یہ مرحوم کے خلف صالح ثابت ہوئے ۔ ان کی اہلیہ طلعت سیدہ جعفری صاحبہ نے بھی کچھ عرصہ مرحوم کی شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ دونوں مل جل کر اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔

  • سیدجعفر مرتضی مرحوم

یہ مولانا مرحوم کے دوسرے فرزند ہیں۔ انھوں نے ایم کام اور چارٹرڈ اکاؤنٹس کے بعدملازمت اختیار کرلی۔ لاہور میں مقیم رہے۔ آپ 2007 میں عید الاضحیٰ کے دن اپنے خاندان کو داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی اہلیہ جفرافیہ میں ایم ایس سی ہیں۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔

  • سیدہ نرجس مرتضیٰ

یہ مولانا مرحوم کی اکلوتی بیٹی ہیں۔ جو دوبھائیوں کے بعد ہیں۔ انھوں نے مولانا مرحوم سے فقہ و حدیث و تفسیر کا درس لیا۔ ان کے شوہر سید مصطفی کمال رضوی کراچی میں سرکاری ملازم ہیں۔ بیگم نرجس مرتضی اپنے گھر میں بچوں، بچیوں کو دینی تعلیم دیتی ہیں۔ ان کی اولاد میں ایک فرزند اور دوبیٹیاں ہیں۔ وہ معاشرہ میں اپنے والد کی شمع علمی کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔

  • ڈاکٹر سید باقر مرتضی

یہ مولانا مرحوم کے چوتھے فرزندہیں۔ انھوں نے کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کے بعدکئی برس ایران میں طبعی خدمت انجام دی ۔ اس کے بعد انگلستان اور امریکا جاکر طب میں علم الادویات میں تخصص حاصل کیا۔ اب امریکا میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار اس وقت امریکا کے مایہ ناز ڈاکٹروں میں ہوتاہے۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

  • سید عابد مرتضیٰ

یہ مرحوم کے پانچویں فرزند ہیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تجارت شروع کی۔ اس کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ اپنے والد مرحوم کے محلہ کی ثقافی سرگرمیوں اور مکان کے وارث بنے۔ وہ مغلپور اور نبی پورہ لاہور میں اپنے والد مرحوم کے قائم کردہ اور دیگرثقافتی اور رضاکارانہ اداروں، مساجد، نیز امام بارگاہوں اور مدارس کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

  • سیدکاظم مرتضیٰ

یہ مولانا مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ انھوں نے بی کام کے بعد تجارت کا پیشہ اختیارکیا۔ اب امریکا میں مقیم ہیں۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔

رحلت

ترمیم

علالت کے باوجود جنوری 1987 ء مطابق 1407ھ کے اوائل میں مولانا سید کلب عابد مرحوم (م: 1986ء مطابق 1407ھ) کے چہلم کے سلسلے میں لکھنؤ تشریف لے گئے، وہاں طبیعت زیادہ ناساز ہو گئی۔ اسی وجہ سے 29 جنوری 1987ء مطابق 1407ھ کو وطن واپس آ گئے اور مسلسل بیمار رہنے لگے۔ جولائی 1986ء میں آپ زیادہ بیمار ہوئے اور ہسپتال میں داخل تھے۔ راقم الحروف "برصغیر کے امامیہ مصنفیں کی مطبوعہ تصانیف و تراجم" پرکا م کررہاتھا۔ ملک فیض بخش صاحب کے ہمراہ کی عیادت کے لیے ہسپتال گیا۔ وہان مولانا مرحوم کے شاگرد مولانا طالب حسین صاحب کرپالوی شہید(م: 1997 ء) بھی تشریف فرماتھے۔ مولانا مرحوم مجھ سے پوچھنے لگے : آج کل کیاکر رہے ہیں؟ میں نے موضوع کاذکر کیا۔ بہت خوش ہوئے۔ احقر کے متعلق حسن ظن رکھتے ہوئے فرمایا: انتہائی مشکل کام ہے مگر آپ جیسا شخص اس کام کو کر سکتاہے ۔ نیز فرمایا: میں آج شام تک ہسپتال سے فارغ ہورہاہوں۔ آپ کل سے میرے کتب خانے میں آئے۔ لیکن میرے یہ کہنے پر بھی حضور آپ چند دن آرام فرمائیں اس کے بعد حاضر ہوجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ طبعیت ٹھیک ہے۔ لہذا تعمیل حکم کے مطابق میں اگلے دن شریعت کدہ پرحاضر ہوا۔ دیرتک کتابوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہے۔ میں نے کوئی چھ دن اس لائبریری میں کام کیا۔ جس کو آپ نے کتابخانہ مرتضوی سے موسوم فرمایا تھا۔ انتہائی نادر و نایاب کتابیں دیکھیں۔ مفتی محمد عباس مرحوم کی سوانح اور تجلیات محمد ہادی عزیز پہلی بار اسی کتب خانے میں دیکھنے کوملیں۔ صورت حال یہ تھی کہ مولانا آرام کی غرض سے اندر تشریف لے جاتے لیکن آدھے گھنٹے کے بعد تشریف لاتے۔ اگر مجھے اس سلسلے میں کوئی مشکل پیش آتی تو اسے حل فرماتے۔ لائبریری میں قیام کے وقت آپ نے میرا ہرممکن خیال رکھا۔ ہر اعتبار سے میری اعانت کی۔ مگر آ پ کی علالت روزبروز بڑھتی رہی۔ آخر کار 27 ذی الحجہ 1407 ھ 23 اگست 1987ء کو میوہسپتال لاہور میں راہی اجل ہو گئے۔ خداوند متعال مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔ مولانا مرحوم کی رحلت کی خبر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے خبریں روک کر نشر کی گئی۔ اس خبر نے پورے ملک کو سوگوارکر دیا۔ صدرپاکستان نے مولانا مرحوم کی رحلت کو قومی سانحہ قراردیتے ہوئے پسماندگان کوتسلیتی پیغام ارسال کیا۔ ایران و عراق ولبنان وہندوستان وغیرہ سے علمی اورسیاسی شخصیتوں کے تعزیتی ٹیلی فون اورپیغام آنا شروع ہو گئے گھر پر سوگواروں کاہجوم ہو گیا۔ مغلپورہ میں لاکھوں سوگوارمرحوم کے مکان پر جمع ہو گئے۔ مولانا مرحوم کے فرزند اکبر مولانا سید حسین مرتضیٰ مدظلہ نے مولانا سید صفدر حسین نجفی کی زیرنگرانی تجہیز وتکفین کا فریضہ انجام دیا۔ جب جنازہ آخری دیدار کے لیے رکھا گیا تو ملک بھر سے آئے ہوئے علما، اساتذہ، ادبا، شعرا، سیاسی اور سماجی رہنماؤں، کارکنوں اورحکومتی وفودکے ساتھ لاکھوں چاہنے والوں نے آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے دور کی عظیم علمی، سماجی اورسیاسی شخصیت کو خداحافظ کہا۔ مجمع کا یہ عالم تھا کہ گھر سے جنازہ گاہ تک آدھ میل کا فاصلہ 2 گھنٹے میں طے کیا گیا۔ اسی دن شام کو مغلپورہ تھانہ کی گراؤنڈ فلور میں نماز جنازہ اداکی گئی۔ مولانا کی محبوبیت کا یہ عالم تھاکہ دومرتبہ نمازجنازہ اداہوئی۔ پہلی نماز جنازہ مولانا مرزا یوسف حسین لکھنوی کی اقتدار میں شیعہ طریقہ پرپڑھی گئی۔ اس میں شیعہ سنی علما نے شرکت کی۔ اس کے بعد مولانا قاضی ولی الرحمن صاحب کی اقتدار میں سنی طریقہ پر نماز جنازہ انجام پائی۔ اس میں بھی شیعہ سنی علما نے مل کر نمازہ جنازہ پڑھی۔ نماز جنازہ کے بعد جنازہ شاہ کمال کے قبرستان کی طرف روانہ ہوا۔ جنازہ گاہ سے قبرستان کافاصلہ تقریباً ایک میل تھا جو ہجوم کے سبب تین گھنٹوں میں طے پایا۔ یوں علم و ادب کے پیکر، تہذیب و ثقافت کے امین اور ہدایت و فقاہت کے مینار کو لاکھوں عقیدتمندوں نے اپنے ہاتھوں بارگاہ ربوبیت میں نذر کرتے ہوئے سپرد لحد کر دیا۔ تلقین کے فرائض بھی مولانا سید حسین مرتضیٰ مدظلہ نے اداکئے۔ مشایعت، نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کرنے والوں میں شیعہ سنی علما ادیب، شاعر، محقق، مصنف، صحافی، خبرنگار، سیاسی، قومی اورسماجی رہنما، حکومتی نمائندے شامل تھے۔ یہ سب کے سب تدفین اور فاتحہ خوانی کے بعد آنسو بہاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ ملک اور بیرون ملک کے اخباروں، ریڈیو اور ٹی وی نے مولانا کی رحلت وتدفین کی خبر اورمرحوم کی زندگی اور خدمات پر تبصرے نشر کیے۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. نقوی، سید حسین عارف، فاضل لکھنوی احوال و آثار، ص16
  2. نقوی، سیدحسین عارف، فاضل لکھنوی احوال و آثار، ص17
  3. نقوی، سیدحسین عارف، فاضل لکھنوی احوال و آثار، ص20
  4. نقوی، سید عارف حسین، فاضل لکھنوی احوال و آثار، ص22
  5. "Index of /"۔ 24 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2016 
  6. نقوی، سیدحسین عارف، فاضل لکھنوی احوال و آثار، ص79