مرزا ظفر الحسن

اردو زبان کے مصنف، نقاد، ادارہ یادگار غالب کراچی کے بانی

مرزا ظفر الحسن (پیدائش:3 جون 1916ء - 4 ستمبر 1984ء) اردو زبان کے نامور مصنف، افسانہ نگار، نشرگاہ حیدرآباد سے وابستہ براڈکاسٹر، ادبی نقاد، ادارۂ یادگار غالب کراچی کے بانی سیکریٹری جنرل، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین کی حیات و شاعری پر مشتبل کتاب عمر گذشتہ کی کتاب کے مؤلف، ریاست حیدرآباد سے متعلق یادداشتوں پر مبنی تین کتابوں ذکر یار چلے، پھر نظر میں پھول مہک اور دکن اداس ہے یارو کے مصنف تھے۔

مرزا ظفر الحسن

معلومات شخصیت
پیدائش 3 جون 1916ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سنگاریڈی،  ریاست حیدرآباد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 ستمبر 1984ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سخی حسن،  کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاست حیدرآباد
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ عثمانیہ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ افسانہ نگار،  سوانح نگار،  ادبی نقاد،  اناؤنسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن،  الیکشن کمیشن پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

مرزا ظفر الحسن 3 جون 1916ء[1][2] کو سنگا ریڈی، ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ معاشیات میں ایم اے کی ڈگری جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی۔ دورانِ طالب علمی انجمن طلبہ جامعہ عثمانیہ کے سیکریٹری بھی رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد نشرگاہ حیدرآباد سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی کافی نام کمایا۔ سقوط حیدرآباد کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے۔ پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ ملازمت کے آخری عرصہ میں 26 جنوری 1968ء میں غالب کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے کراچی میں ادارہ یادگار غالب کی بنیاد رکھی اور ایک مثالی کتب خانہ غالب لائبریری قائم کیا، جو اپنے قیمتی ذخائر کے علاوہ کراچی کا ایک ادبی و تہذیبی مرکز بھی بنا رہا، وہ اس ادارے کے بانی سیکریٹری جنرل رہے۔ انھیں ادب کا بے پناہ ذوق تھا۔ آغاز میں افسانہ نگاری کی، لیکن پھر لکھنے کا مشغلہ ترک کر دیا۔ تقریباً تیس برس کے وقفہ کے بعد پھر لکھنے کی طرف راغب ہوئے اور اپنے دلنشیں اسلوبِ تحریر سے پڑھنے والوں کو گرویدہ بنا لیا۔ ان کی کتابوں میں ذکرِ یار چلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور دکن اداس ہے یارو دکن سے متعلق ان کی یادداشتوں کے مجموعے ہیں، عمرِ گذشتہ کی کتاب (مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کے کلام کا تقابلی مطالعہ) ، خون دل کی کشید (فیض کی شخصیت و فن)، یادِ یار مہرباں (زیڈ اے بخاری کی یادوں پر مشتمل)، وہ قربتیں وہ فاصلے (دکن کا سفرنامہ) اور محبت کی چھاؤں (افسانوں کا مجموعہ) شامل ہیں۔ فیض کی کتابیں متاع لوح و قلم، صلیبیں مرے دریچے میں اور ہماری قومی ثقافت بھی انھوں نے ہی مرتب کی تھی۔ مرزا ظفر الحسن چند سالوں تک ادارہ یادگار غالب کے سہ ماہی مجلہ غالب کے مدیر بھی رہے۔[3] 4 ستمبر 1984ء کو کراچی میں ان کی وفات ہو گئی۔کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں مدفون ہیں۔[1][4][2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ کراچی، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 326
  2. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور، 2018ء، ص 261
  3. ڈاکٹر عمر خالدی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، سقوط حیدرآباد: منظر اور پیش منظر، دار الاشاعت کل ہند مجلس تعمیر ملت حیدرآباد، ستمبر 1998ء، ، ص 145
  4. پروفیسر محمد اسلم، وفیات مشاہیر پاکستان، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1990، ص 163