مرزا قلیچ بیگ

شاعر، ناول نگار، مترجم، مورخ، ماہر لسانیات، ماہر لطیفیات

شمس العلما مرزا قلیچ بیگ (انگریزی: Mirza Kalich Beg)، (پیدائش: 4 اکتوبر،1853ء - وفات: 3 جولائی، 1929ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے انیسویں صدی کے مشہور و معروف عالم، صاحبِ دیوان شاعر، ماہرِ لسانیات، ماہرِ لطیفیات، مورخ، مترجم، ناول نگار اور ڈراما نویس تھے۔ انھوں نے آٹھ مختلف زبانوں میں تقریباً 457 کتابیں تصنیف، تالیف و ترجمہ کیں، ان میں عربی، بلوچی، انگریزی، فارسی، سندھی، سرائیکی، ترکی اور اردو زبانیں شامل ہیں۔

مرزا قلیچ بیگ

معلومات شخصیت
پیدائش 4 اکتوبر 1853ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹنڈو ٹھوڑو ،  حیدرآباد ،  بمبئی پریزیڈنسی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 جولا‎ئی 1929ء (76 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹنڈو ٹھوڑو ،  حیدرآباد ،  بمبئی پریزیڈنسی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی الفنسٹن کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم ،  ناول نگار ،  ماہرِ لسانیات ،  ڈراما نگار ،  مورخ ،  شاعر ،  فرہنگ نویس   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی ،  سندھی ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل ڈراما ،  خود نوشت ،  سندھ کی تاریخ ،  لغت ،  ترجمہ ،  ناول ،  سوانح ،  بچوں کا ادب ،  غزل   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

مرزا قلیچ بیگ 4 اکتوبر،1853ء ٹنڈو ٹھوڑو، حیدرآباد، سندھ، بمبئی پریزیڈنسی میں پیدا ہوئے[1]۔ ان کے والد مرزا فریدون بیگ کا تعلق وسطی ایشیا کے علاقے جارجیا کے ایک مسیحی گھرانے سے تھا، انھیں جنگ میں قید کر کے سندھ کے مرزا خُسرو بیگ کے ہاتھ ایک غلام کے طور پر فروخت کر دیا گیا۔ خُسرو بیگ، مرزا فریدون کو اپنے ساتھ سندھ لے آیا اور انھیں آزاد کر کے تعلیم و تربیت دلوائی۔ فریدون بیگ نے خُسرو بیگ کی بیٹی سے شادی کی۔ برطانیہ افواج کے ہاتھوں تالپور میروں کی حکومت کے خاتمے اور سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد فریدون بیگ حیدرآباد کے مضافات میں واقع ایک گھر میں سکونت پزیر ہوئے جہاں 1853ء میں مرزا قلیچ بیگ تولد ہوئے۔[1]

مرزا قلیچ بیگ نے ابتدائی تعلیم مکتب سے حاصل کی اور بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول حیدرآباد میں داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد انھوں نے الفنسٹن کالج بمبئی (Elphinstone College ) میں داخلہ لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے اور انھوں نے عدالتی امتحان پاس کر کے مختیار کار کے طور پر شکارپور میں تعینات ہوئے۔ برطانوی راج کی تیس سالہ ملازمت کے اختتام پر 1910ء میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔[1]

ادبی خدمات

ترمیم

مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف، تالیف و ترجمہ کیں، ان میں عربی، بلوچی، انگریزی، فارسی، سندھی، سرائیکی، ترکی اور اردو زبانیں شامل ہیں۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ لاتعداد موضوعات پر مشتمل ہیں۔ انھوں نے زینت کے نام سے پہلا سندھی ناول اور ابتدائی سندھی ڈراموں میں سے ایک خورشید لکھا۔ مرزا قلیچ بیگ کی شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سوانحِ حیات اور شاعری پر ان کی تصانیف سندھی ادب میں ایک بڑی شراکت اور سندھی زبان میں ادبی تنقید کا آغاز تصور کی جاتی ہیں۔ انھوں نے ہی سب سے پہلے چچ نامہ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے شیکسپئر کے لاتعداد ڈراموں کو سندھی کے قالب میں ڈھالا۔[2]

تصانیف

ترمیم
  • دیوان قلیچ
  • احوالِ شاہ عبد اللطیف بھٹائی
  • چچ نامہ (فارسی سے انگریزی ترجمہ)
  • ریاست خیرپور جی تاریخ (سندھی)
  • خورشید
  • زینت (سندھی ناول)
  • ساؤ پن یا کارو پنو (خودنوشت)
  • دلارام
  • خودیاوری
  • حاجی بابا اصفہانی
  • جولئن ہوم
  • شاہ جو رسالو
  • لغات لطیفی
  • لطائف الطوائف
  • تحفۃ النسواں (عرب، عجم، ہند و سندھ کی 36 مشہور خواتین کا تذکرہ)
  • رستم (بچوں کا ادب)
  • لبا خان درزی اور خلیفہ کہنگ (بچوں کا ادب)
  • شہزادی قدم برگ (بچوں کا ادب)
  • وامق عذرا (بچوں کا ادب)
  • عجیب طلسم (بچوں کا ادب)
  • علم جی دولت (بچوں کا ادب)
  • گلیور جو سیر و سفر
  • نیکی اور بدی
  • انکوائری آفیسر (گوگول کے ڈرامے کا سندھی ترجمہ)

اعزازات

ترمیم

مرزا قلیچ بیگ کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں برطانوی حکومت ہند نے شمس العلما کے خطاب سے نوازا۔

وفات

ترمیم

مرزا قلیچ بیگ3 جولائی، 1929ء کو ٹنڈو ٹھوڑو، حیدرآباد، بمبئی پریزیڈنسی میں وفات پاگئے۔[1][2]

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم