غلام علی ہمدانی مصحفی
شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی (پیدائش : 1748ء [3]— وفات :1824ء) اردو زبان کے کلاسیکی اور عہدِ قدیم کے شاعر ہیں۔میر تقی میر کے بعد بحیثیتِ مجموعی اردو شاعری کے دورِ قدیم میں مصحفی، مرتبہ میں سب سے بلند ہے۔[4] ان کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شعری مزاج دہلی میں صورت پزیر ہوا لیکن لکھنوکے ماحول، دربارداری کے تقاضوں اور سب سے بڑھ کرانشا سے مقابلوں نے انھیں لکھنوی طرز اپنانے پر مجبور کیا۔ ان کا منتخب کلام کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں۔ اگر جذبات کی ترجمانی میں میر تک پہنچ جاتے ہیں تو جرات اور انشا کے مخصوص میدان میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ یوں دہلویت اور لکھنویت کے امتزاج نے شاعری میں بیک وقت شیرینی اور نمکینی پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف جنسیت کا صحت مندانہ شعور ہے تو دوسری طرف تصوف اور اخلاقی مضامین بھی مل جاتے ہیں۔ آپ تیسرے شعری دور کے صدر مانے جاتے ہیں۔آٹھ اردو، ایک فارسی دیوان اور تین تذکرے آپ کے یادگار ہیں.
غلام علی ہمدانی مصحفی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1748ء [1][2] اکبر پور، امبیڈکر نگر |
وفات | سنہ 1824ء (75–76 سال)[1][2] لکھنؤ |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، اردو |
شعبۂ عمل | شاعری ، غزل |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیممصحفی کے سال پیدائش میں اختلاف ہے۔ تذکرہ نگاروں نے 1746ء سے 1753ء کے درمیانی سالوں میں ہی کسی سال کو مصحفی کا سال پیدائش قرار دیا ہے مگر درست یہی ہے کہ وہ اُس سال پیدا ہوئے جب احمد شاہ ابدالی نے خطۂ پنجاب پر حملہ کیا یعنی 1748ء میں۔ محققین کی تحقیق کے مطابق وہ 1748ء میں اکبر پور (موجودہ ضلع امروہہ) میں پیدا ہوئے۔[3][5][6] سال پیدائش کی طرح مصحفی کے جائے پیدائش کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ اکبرپور (موجودہ ضلع امروہہ) کو مصحفی کا مقام پیدائش قرار دیا جاتا ہے۔[7] محقق افسر صدیقی امروہوی کے مطابق مصحفی کی پیدائش بلبھ گڑھ (موجودہ بلرام گڑھ، ضلع فرید آباد، ہریانہ) میں ہوئی۔[8] مسلک کے اعتبار سے وہ شیعہ اثناعشری تھے۔[9]
ابتدائی زندگی
ترمیممصحفی نے اپنے حالات اِس قدر مختصر لکھے ہیں کہ اُن کے واقعاتِ زندگی کا تعین کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ابتدائی زندگی میں اُن کا قیام امروہہ میں رہا جہاں انھوں نے شاعری کی تعلیم پائی۔ دو مختلف شعرا کا تذکرہ اُن کی تصنیف عقد ثریا میں ملتا ہے۔ ایک شاعر جس کا تخلص قاسم[10] اور دوسرے محتشم خاں تھے۔[11] محتشم خان دہلی کے کامیاب شاعر تھے، نادر شاہ کے حملہ دہلی (فروری 1739ء) میں وہ دہلی سے ہجرت کرکے امروہہ میں آباد ہو گئے تھے۔[12] اپنی تصنیف ریاض الفصحاء میں علوم و فنون کی تحصیل کے متعلق بھی لکھا ہے۔
وفات
ترمیممصحفی کا انتقال 76 سال کی عمر میں 1240ھ مطابق 1824ء میں لکھنؤ میں ہوا۔[6]
مصفحی کی شاعرانہ عظمت
ترمیمغلام ہمدانی مصحفی عبوری دور کے شاعر کہلاتے ہیں۔ان کی شاعری میں دونوں دبستانوں کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔فراق گورکھ پوری نے انہیں میر تقی میر کا اصل مقلد کہا ہے۔
اشفاق شاہین لکھتے ہیں :
غلام ہمدانی مصحفی کے کلام میں جابجا محبوب کے ظاہری جمال کا نقشہ کھنچا ہوا ملتا ہے ۔وہ اپنے محبوب کے بھیگے ہوئے جسم کی بات تو کرتے ہیں لیکن اس میں انشا کی طرح اخلاقیات کی حد پار نہیں کرتے۔[13]
نمونہ کلام
ترمیمجمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے | ||
ہم نے بھی اپنے جی میں کیا کیا خیال باندھے |
ہم نے بھی اپنے جی میں کیا کیا خیال باندھے |
وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو | ||
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں |
تیرے کوچے میں اس بہانے ہمیں دن سے رات کرنا | ||
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا |
چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم | ||
کہیں تو قافلہء نو بہار ٹھہرے گا | ||
جو سیرکرنی ہو، کر لے کہ جب خزاں آئی | ||
نہ گل رہے گا چمن میں، نہ خار ٹھہرے گا |
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ربط: https://d-nb.info/gnd/132640759 — اخذ شدہ بتاریخ: 4 مئی 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/190031 — بنام: G̲h̲ulām Hamdānī Muṣḥafī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب
- ↑ ابو اللیث صدیقی: مصحفی اور اُن کا کلام، صفحہ 5۔
- ↑ افسر صدیقی امروہوی: مصحفی، حیات و کلام، صفحہ 37۔ مطبوعہ کراچی، 1975ء
- ^ ا ب مالک رام: تذکرہ ماہ و سال، صفحہ 358۔ مطبوعہ دہلی، 2011ء
- ↑ افسر صدیقی امروہوی: مصحفی، حیات و کلام، صفحہ 44/45۔ مطبوعہ کراچی، 1975ء
- ↑ افسر صدیقی امروہوی: مصحفی، حیات و کلام، صفحہ 46۔ مطبوعہ کراچی، 1975ء
- ↑ ابو اللیث صدیقی: مصحفی اور اُن کا کلام، صفحہ 11۔
- ↑ مصحفی: عقد ثریا، صفحہ 45۔
- ↑ مصحفی: عقد ثریا، صفحہ 54۔
- ↑ افسر صدیقی امروہوی: مصحفی، حیات و کلام، صفحہ 48۔ مطبوعہ کراچی، 1975ء
- ↑ "Ghulam Hamdani Mushafi ki Shairy|غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-06-10