مظہر عباس ایک پاکستانی صحافی ہیں۔ وہ اے آر وائی نیوز کے نائب ناظم اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے معتمد عمومی ہیں۔ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس کے بھائی ہیں۔[1]

مظہر عباس
معلومات شخصیت
پیدائش 6 جولا‎ئی 1958ء (66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش اسلام آباد   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ صحافی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عباس، جوتقریبًا تیس سال تک صحافی کے طور پر کام کرتے رہے، اپنے کام کی وجہ سے کئی دھمکیوں کے گھیرے میں رہے۔ تین آزاد ٹی وی چیانلوں کی مسدودی کے معاملے کو طشت از بام کرنے کے بعد جو پرویز مشرف کے خلاف عوامی احتجاج کو پوری طرح سے منظرکشی کر رہے تھے، عباس کو پولیس کے الزامات کا 2007 میں سامنا کرنا پڑا۔ اسی سال مئی میں وہ اور دیگر دو صحافی اپنی کاروں پر گولیوں سے بھرے سفید لفافے دستیاب ہوئے۔[1]

ابتدائی زندگی

ترمیم

مظہر کی پیدائش 6 جولائی 1958 کو ہوئی تھی۔ انھوں نے انٹرمیڈیٹ لطیف آباد، حیدرآباد کے گورنمنٹ کالج سے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے صحافت میں اعلٰی تعلیم کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔

عملی زندگی

ترمیم

مظہر نے کراچی یونیورسٹی کے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے لکھنا شروع کر دیا۔ انھوں نے اس وقت نوائے وقت کے لیے لکھا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے دی اسٹار کے لیے کام کیا جو کراچی کا ایک مشہور شام کا اخبار تھا۔

بعد میں انھوں نے ایک امریکی رسالے کے لیے دس سال کام کیا اور اخبار ڈان کے لیے بھی لکھا۔ اس کے بعد انھوں نے آؤٹ لُک انڈیا کے لیے کام کیا جو بھارت کا ایک اخبار ہے۔ وہ اے ایف پی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے بیورو کے صدر بھی بنے۔

1992 میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن سے جڑ گئے مگر طباعتی ذرائع کا کام جاری رکھا۔ 2002 میں انھوں نے اے آر وائی کے تبصراتی پروگراموں کی میزبانی کرنے لگے اور اسی سال انھوں نے وال اسٹریٹ جرنل ساؤتھ ایشیا بیورو کے صدر ڈانیل پرل کے اغوا اور قتل کو اے ایف پی کے کرسپانڈنٹ کے طور پر دنیا کے آگے پیش کیا۔ 2007 میں وہ اے آر وائی ون ورلڈ سے ہمہ وقت جڑے جو اب اے آر وائی نیوز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ نائب ناظم بن گئے۔ انھوں نے ”اسپاٹ لائٹ” کے نام سے ہم ٹی وی پر ایک شو کی میزبانی کی۔ اس کے بعد وہ اے آر وائی کے لیے ایک ہفتہ وار شو دو ٹوک کیے جس میں انھوں نے ملک کی فوجی شخصیات کا انٹرویو لیا۔ بعد میں وہ ایکسپریس نیوز میں حالات حاضرہ کے ناظم بنے۔

2009 میں انھیں اعزازی میسوری میڈل (Missouri Medal of Honor) ان کی صحافت کے شعبے میں خدمات کے اعتراف دیا گیا تھا۔ وہ ان پانچ صحافیوں سے ایک تھے جنہیں بین الاقوامی آزادی صحافت انعام (International Press Freedom Award) سال 2007 میں دیا گیا تھا۔ یہ انعام ان صحافیوں کو دیا جاتا ہے جنھوں نے صحافت کی آزادی کو حملوں، دھمکیوں اور قیدوبند کی صورت میں بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ 2010 میں انھیں ایک انعام پاکستان کی انسانی حقوق سوسائٹی کی جانب سے آزادی صحافت کی کوششوں کے لیے دیا گیا۔ 35 سالہ صحافت کے دوران انھوں نے 5000 مضامین لکھے اور 400 ٹی وی شوز کا حصہ بنے۔

موجودہ کام

ترمیم

مظہر مختلف چیانلوں پر تجربہ کار تجزیہ نگار کا کردار نبھا رہے ہیں۔

شخصی زندگی

ترمیم

مظہر کے تین بھائی ہیں: ظفر عباس جو ڈان کے ایک مدیر ہیں، میجر جنرل اطہر عباس جو سابق ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں اور اظہر عباس جو جیو نیوز کے سابق صدر رہے ہیں۔

مظہر شادی شدہ ہیں اور ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "Mazhar Abbas - TV journalist, Pakistan - Awards - Committee to Protect Journalists"۔ Cpj.org۔ 2007-11-27۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2012