معافی بن عمران
حضرت معافی بن عمران رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شمار تبع تابین میں ہوتا ہے۔آپ نے 185ھ میں وفات پائی ۔
محدث | |
---|---|
معافی بن عمران | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | معافی بن عمران ابن محمد بن عمران بن نفیل بن جابر بن وہب بن عبید اللہ بن لبید بن جبلہ بن غنم بن دوس بن محاسن بن سلمہ بن فہم |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | موصل |
شہریت | خلافت عباسیہ |
کنیت | ابو مسعود |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
نسب | ازدی ،فہمی ،نفیلی اور موصلی |
ابن حجر کی رائے | ثقہ |
ذہبی کی رائے | ثقہ |
استاد | سفیان ثوری ، ابن جریج ، عبد الرحمن اوزاعی |
نمایاں شاگرد | عبد اللہ بن مبارک ، وکیع بن جراح ، بقیہ بن ولید |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیممعافی نام اور ابو مسعود کنیت تھی، نسب نامہ یہ ہے؛ معافی بن عمران ابن محمد بن عمران بن نفیل بن جابر بن وہب بن عبید اللہ بن لبید بن جبلہ بن غنم بن دوس بن محاسن بن سلمہ بن فہم [1]ازدی ،فہمی ،نفیلی اور موصلی ان کی خاندانی اور وطنی نسبتیں ہیں۔ ولادت کی تصریح نہیں ملتی، لیکن علما نے ان کا سال وفات 185ھ اور عمر 60 سال ذکر کی ہے۔ جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ 125ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
تعلیم و تربیت
ترمیمانھیں کم عمری ہی سے طلب علم کا بے پناہ شوق تھا؛ چنانچہ بکثرت مقامی علما سے اکتسابِ فیض کے بعد بھی ان کی تشنگی علم فرو نہ ہو سکی اور دوسرے ملکوں کا سفر کر کے وہاں کے ممتاز منبع ہائے علم سے سیراب ہوئے، اسی سلسلہ میں کوفہ پہنچے، جو حرمین شریفین کے بعد علوم دینیہ کا سب سے بڑا مرکز شمار ہوتا تھا اور وہاں زمرۂ تبع تابعین کے گل سر سبد حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں ایک عرصہ تک قیام کر کے فقہ ، ادب اور حدیث میں مہارت پیدا کی، اس طویل شرف صحبت نے ان کو امام سفیان ثوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علوم کا گنجینہ بنا دیا تھا، ابو زکریا ازدی اپنی تاریخ موصل میں لکھتے ہیں: رحل فی طلب العلم الی الافاق وجالس العلماء ولزم الثوری وتادب بادابہ وتفقہ بہ واکثر عنہ [2] انھوں نے طلب علم کے سلسلہ میں دنیا کا سفر کیا، علما کی صحبت میں بیٹھے، علی الخصوص امام سفیان ثوری سے فقہ و ادب وغیرہ کی کافی تحصیل کی۔
شُیوخ
ترمیمان کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے؛ کیونکہ انھوں نے عراق اور جزیرہ کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر ممتاز علمی مرکز سے اکتساب فیض کیا تھا۔ خود اپنے بیان کے مطابق انھوں نے آٹھ سو (800) شیوخ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا تھا، ان میں لائق ذِکر اسماء گرامی حسبِ ذیل ہیں: ہشام بن عروہ، ابن جریج، امام اوزاعی ، سعید بن ابی عروبہ، سفیان ثوری ، مالک بن مغول، حریز بن عثمان، سلیمان بن ہلال، ابراہیم بن طہمان، اسرائیل بن یونس، ثور بن یزید ، جعفر بن برقان، حماد بن سلمہ، حنظلہ بن ابی سفیان ، عبد الحمید بن جعفر ، زکریا بن اسحاق، ہشام بن سعد۔
تلامذہ
ترمیمان کے حلقہ تلامذہ میں بہت سے نامور علما شامل ہیں۔ ان کے صاحبزادگان احمد و عبد الکبیر کے علاوہ چند ممتاز نام یہ ہیں ، بشر حافی ،اسحاق بن عبد الواحد قرشی، ابراہیم بن عبد اللہ، محمد بن عبد اللہ بن عمار، محمد بن جعفر ورکانی، حسن بن بشر ہجلی ، مسعود بن جویریہ، ہشام بن بہرام، محمد بن علی موصلی ، یحییٰ بن مخلد المقسمی، موسیٰ بن مروان رقی۔ [3]
علم و فضل
ترمیمفضل و کمال کے اعتبار سے ان کا شمار علمائے اعلام میں ہوتا ہے بالخصوص موصل اور جزیرہ میں علومِ دینیہ کو انہی کی جدوجہد سے فروغ حاصل ہوا۔ چنانچہ بقول علامہ ابن "اہل موصل ان کو اپنے لیے مایہ صدافتخار وناز تصور کرتے تھے۔ [4] سفیان ثوری ان کی جلالتِ شان کے اس حد تک معترف تھے کہ انھیں "یاقوت العلماء" کا خطاب دے دیا تھا [5] ابن عمار کا بیان ہے کہ: لمأ راحداً اقط افضل منہ [6] میں نے ان سے بڑا فاضل نہیں دیکھا۔ بشر بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ معافی علم و دانش اور نیکی و صالحیت کا پیکر مجسم تھے۔ کان المعافی محشؤابا لعلم وَ الفھم والخیر [7] معافی میں علم و فہم اور صلاح وخیر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
حدیث
ترمیمحدیث میں انھیں خاص درک و کمال حاصل تھا، ائمہ جرح و تعدیل نے ان کی مرویات کو ثقہ اور حجت قرار دیا ہے، ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ فاضلا خیرا صاحب سنۃ [8] وہ ثقہ، فاضل، صالح اور سنت کے متبع تھے۔ علاوہ ازیں ابن معین، ابوحاتم، ابن خراش اور عجلی نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔ [9]
تقویٰ وصالحیت
ترمیمکمالِ علم کے ساتھ زہد و عبادت اور تقویٰ وصالحیت بھی ان کا طغرائے امتیاز تھی، ابو زکریا ازدی کا بیان ہے کہ: کان زاھداً فاضلا شریفاً کریماً عاقلاً [10] وہ متقی، فاضل، شریف و نیک اور اہلِ دانش تھے۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ بڑے عابد و زاہد تھے، عبداللہ بن مبارک جو عمر میں ان سے بہت بڑے تھے، فخر کے ساتھ ان سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں"حدثنی الرجل الصالح" [11]
رضا برضائے الہیٰ
ترمیمغم و مسرت ہر موقع پر خداوند قدوس کی مشیت پر راضی و شاکر رہتے تھے، خوارج نے ان کے دو لڑکوں کو نہایت بے دردی سے تہ تیغ کر دیا تھا۔ لیکن کبھی خدا کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ [12]
سیرچشمی
ترمیماللہ تعالی نے انھیں کثرتِ علم کے ساتھ دنیاوی خوش حال اور فارغ البالی سے بھی سر فراز کیا تھا، مال ودولت کے علاوہ بڑے صاحبِ جائداد تھے، لیکن اس کے باوجود خود ان کی زندگی نہایت سادہ تھی جو کچھ غلہ ان کے پاس آتا تھا، اس میں سے بقدرِ کفاف رکھ کر باقی سب اپنے احباب میں جن کی تعداد 34 تھی تقسیم کردیتے تھے [13]بشر بن الحارث کا بیان ہے کہ شیخ معافی کبھی تنہا کھانا تناول نہ فرماتے تھے؛ بلکہ اپنے ساتھ دسترخوان پر کچھ لوگوں کو ضرور شریک کرتے۔ [14]
وفات
ترمیمباختلافِ روایت 185ھ یا 186ھ میں رحلت فرمائی۔ [15] ابن عماد حنبلی نے اول الذکر کو اصح قرار دیا ہے [16]انتقال کے وقت 60 سال کی عمر تھی۔
تصنیف
ترمیمابو زکریا ازدی نے "تاریخ موصل" میں امام معافی رحمۃ اللہ علیہ کو حدیث وغیرہ کی بکثرت کتابوں کا مصنف لکھا ہے۔ [17]لیکن کسی دوسرے مآخذ سے اس کی تائید نہیں ہوئی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (طبقات ابن سعد:7/184)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/199)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/248)
- ↑ (طبقات ابن سعد:7/184)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/264)
- ↑ (شذرات الذہب:1/380)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/200)
- ↑ (طبقات ابن سعد:7/184)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/200)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/200)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/200)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/262)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/200)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/263)
- ↑ (شذرات الذہب:1/308)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/462)