معاہدہ قسطنطنیہ (1590)
معاہده قسطنطنیہ، جسے استنبول کا امن [1] [2] یا معاہدہ فرہاد پاشا [3] ( ترکی زبان: Ferhat Paşa Antlaşması ) بھی کہا جاتا ہے، سلطنت عثمانیہ اور صفوی سلطنت کے درمیان میں 1578–1590 کی عثمانی صفوی جنگ کے خاتمے کا معاہدہ تھا۔ اس پر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول ) میں 21 مارچ 1590 کو دستخط کیے گئے تھے۔ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب عثمانیوں نے، مراد ثالث کے زیر اقتدار، صفویوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، جارجیا میں صفوی زمینوں پر حملہ کر دیا تھا۔ [3] سلطنت متعدد محاذوں اور اندرونی معاملات مثلا" خانہ جنگیوں، درباری سازشوں سے گھری ہوئی تھی، تو نئے صفوی بادشاہ عباس اول، جو 1588 میں تخت پر بیٹھا تھا، نے جنگ کی بجائے غیر مشروط امن کا انتخاب کیا، جس کی وجہ سے یہ معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے نے دونوں مقابل حریفوں کے مابین 12 سال کی دشمنی ختم کردی۔ [1] اگرچہ جنگ اور معاہدہ دونوں ہی عثمانیوں کے لیے کامیابی تھی اور صفویوں کے لیے سخت نقصان دہ تھا، لیکن اس کی نئی حیثیت بہت کم عرصے کے لیے رہی، جیسا کہ اگلی کئی جنگوں میں، صفوی سلطنت کے تمام نقصانات پورے ہو گئے۔
جنگ
ترمیمجس وقت یہ جنگ شروع ہوئی اس وقت، صفوی سلطنت کمزور حکمران محمد خدابندہ کے تحت افراتفری کی حالت میں تھی، محمد خدابندہ کی ابتدائی طور پر کامیاب جوابی کارروائی کے باوجود عثمانیوں نے آذربائیجان کے بیشتر صفوی صوبوں (بشمول سابق دار الحکومت تبریز )، جارجیا ( کارٹلی، کاکھیٹی، مشرقی سمتشے میسکیٹی )، قرۃباغ، اریون، شیروان اور خوزستان [1] پر قبضہ کر لیا تھا۔ [3] [4] جب سن 1588 میں عباس اول تخت نشین ہوا تو صفوی سلطنت ابھی تک اندرونی مسائل سے دوچار تھی، اسی اثنا میں عثمانیوں نے اسی سال بغداد اور اس کے فورا بعد گنجہ پر قبضہ کر لیا۔ [1] اس سے بھی زیادہ مسائل (یعنی خانہ جنگی، بغاوت، [5] اور سلطنت کے شمال مشرقی حصے میں ازبکوں کے خلاف جنگ) سے دوچار عباس ناگوار شرائط کے ساتھ ایک توہین آمیز معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی ہو گیا۔ [6] [7]
معاہدہ
ترمیممعاہدے کے مطابق، سلطنت عثمانیہ نے جنگ میں بیشتر زمینیں حاصل کیں۔ ان میں بیشتر جنوبی قفقاز (جس میں جارجیا کے صفوی علاقے شامل تھے، جو کارٹلی اور کاکیٹی پر مشتمل تھے اور سمسٹے مِسکیٹی کے مشرقی حصہ کے ساتھ ساتھ صوبہ اریوان، قرۃ باغ اور شیروان)، آذربائیجان صوبہ (بشمول تبریز، لیکن اس میں اردبیل شامل نہیں تھا، جو صفویوں کے اقتدار میں ہی رہا)، لرستان، داغستان، کردستان، شہرزور، خوزستان، بغداد اور میسوپوٹیمیا کے بیشتر حصے شامل تھے۔ [8] اس معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل کی گئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ صفوی پہلے تین خلفا راشدین پر لعنت بھیجنے کا سلسلہ بند کریں گے، [9] [10] جو پہلے عثمانی - صفوی معاہدے یعنی امن اماسیا (1555) میں بھی شامل تھی۔ فارسی سنی مسلک کے مذہبی رہنماؤں کا احترام کرنے پر بھی راضی ہو گئے۔
جنگ کے بعد
ترمیمیہ معاہدہ سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک کامیابی تھی، کیونکہ وسیع و عریض علاقوں کو فتح کر لیا گیا تھا۔ تاہم، نیا جمود زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔ عباس اول، جس نے اب عثمانیوں کے ساتھ مرکزی محاذ پر امن معاہدہ کے بعد دوسرے امور (جن میں ازبک اور بغاوتیں) کے ساتھ کامیابی سے نپٹتے میں وقت اور وسائل بروئے کار لایا۔ [11] [2] جب سلطنت عثمانیہ جلالی بغاوتوں سے دوچار تھی، تو صفوی اپنے بیشتر زمینوں کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جسے عثمانی سلطنت کو اس معاہدے کے 22 سال بعد معاہدہ نصوح پاشا میں قبول کرنا پڑا۔
حوالہ جات
ترمیم- David Blow (2009)۔ Shah Abbas: The Ruthless King Who Became an Iranian Legend۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-676-7 David Blow (2009)۔ Shah Abbas: The Ruthless King Who Became an Iranian Legend۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-676-7 David Blow (2009)۔ Shah Abbas: The Ruthless King Who Became an Iranian Legend۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-676-7
- اورگا، نکولا: گیسٹیچٹ ڈیس عثمانیشین ریخس والیوم۔ III، (ٹرانس: نیلفر ایپیلی) یدیڈیپی یائینلری، 2009 ، آئی ایس بی این 975-6480-20-3
- Willem Floor (2001)۔ Safavid Government Institutions۔ Costa Mesa, California: Mazda Publishers۔ ISBN 978-1-56859-135-3 Willem Floor (2001)۔ Safavid Government Institutions۔ Costa Mesa, California: Mazda Publishers۔ ISBN 978-1-56859-135-3 Willem Floor (2001)۔ Safavid Government Institutions۔ Costa Mesa, California: Mazda Publishers۔ ISBN 978-1-56859-135-3
- Willem Floor، Edmund Herzig، مدیران (2015)۔ Iran and the World in the Safavid Age۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-1-78076-990-5 Willem Floor، Edmund Herzig، مدیران (2015)۔ Iran and the World in the Safavid Age۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-1-78076-990-5 Willem Floor، Edmund Herzig، مدیران (2015)۔ Iran and the World in the Safavid Age۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-1-78076-990-5
- Rudolph P. Matthee (1999)۔ The Politics of Trade in Safavid Iran: Silk for Silver, 1600–1730۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-64131-9 Rudolph P. Matthee (1999)۔ The Politics of Trade in Safavid Iran: Silk for Silver, 1600–1730۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-64131-9 Rudolph P. Matthee (1999)۔ The Politics of Trade in Safavid Iran: Silk for Silver, 1600–1730۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-64131-9
- Josef W. Meri، Jere L. Bacharach (2006)۔ Medieval Islamic Civilization: L-Z, index۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 581۔ ISBN 978-0-415-96692-4 Josef W. Meri، Jere L. Bacharach (2006)۔ Medieval Islamic Civilization: L-Z, index۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 581۔ ISBN 978-0-415-96692-4 Josef W. Meri، Jere L. Bacharach (2006)۔ Medieval Islamic Civilization: L-Z, index۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 581۔ ISBN 978-0-415-96692-4
- Alexander Mikaberidze، مدیر (2011)۔ "Ottoman-Safavid Wars"۔ Conflict and Conquest in the Islamic World: A Historical Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ ISBN 978-1-59884-336-1 Alexander Mikaberidze، مدیر (2011)۔ "Ottoman-Safavid Wars"۔ Conflict and Conquest in the Islamic World: A Historical Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ ISBN 978-1-59884-336-1 Alexander Mikaberidze، مدیر (2011)۔ "Ottoman-Safavid Wars"۔ Conflict and Conquest in the Islamic World: A Historical Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ ISBN 978-1-59884-336-1
- Colin p. Mitchell (2009)۔ The Practice of Politics in Safavid Iran: Power, Religion and Rhetoric۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-588-3 Colin p. Mitchell (2009)۔ The Practice of Politics in Safavid Iran: Power, Religion and Rhetoric۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-588-3 Colin p. Mitchell (2009)۔ The Practice of Politics in Safavid Iran: Power, Religion and Rhetoric۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-588-3
- H. R. Roemer (1986)۔ "The Safavid Period"۔ $1 میں Peter Jackson، Laurence Lockhart۔ The Cambridge History of Iran۔ 6۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-1-139-05498-0۔ H. R. Roemer (1986)۔ "The Safavid Period"۔ $1 میں Peter Jackson، Laurence Lockhart۔ The Cambridge History of Iran۔ 6۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-1-139-05498-0۔ H. R. Roemer (1986)۔ "The Safavid Period"۔ $1 میں Peter Jackson، Laurence Lockhart۔ The Cambridge History of Iran۔ 6۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-1-139-05498-0۔
- Andrew J. Newman (2012)۔ Safavid Iran: Rebirth of a Persian Empire۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-661-3 Andrew J. Newman (2012)۔ Safavid Iran: Rebirth of a Persian Empire۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-661-3 Andrew J. Newman (2012)۔ Safavid Iran: Rebirth of a Persian Empire۔ I.B.Tauris۔ ISBN 978-0-85771-661-3
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت Roemer 1986.
- ^ ا ب Mitchell 2009.
- ^ ا ب پ Mikaberidze 2011.
- ↑ Floor 2001.
- ↑ Such as in Shirvan, which was sparked due to heavy taxation (Matthee (1999)، p. 21)
- ↑ Bengio & Litvak 2014.
- ↑ Prof. Yaşar Yücel-Prof. Ali Sevim:Türkiye Tarihi III، AKDTYKTTK Yayınları، 1991, pp. 21–23, 43–44
- ↑ Mikaberidze (2011)، p. 698; Meri & Bacharach (2006)، p. 581; Iorga (2009)، p. 213; Floor & Herzig (2015)، p. 474; Newman (2012)، p. 52; Bengio & Litvak (2014)، p. 61; Mitchell (2009)، p. 178
- ↑ Floor & Herzig 2015.
- ↑ Newman 2012.
- ↑ Blow 2009.