یہ معرکہ 1227ھ / 1812ء میں وادیٔ صفرہ کے معرکہ کے فوری بعد مدینہ منورہ کے مقدس مقام پر عثمانیوں کے حمایت یافتہ مصری دستوں اور وہابیوں کے مابین رونما ہوا تھا۔[1]

معرکہ مدینہ
سلسلہ عثمانی-سعودی جنگ

دور عثمانی میں مدینہ، مسجد نبوی
تاریخنومبر 1812
مقاممدینہ، مغربی عرب
نتیجہ عثمانی - مصری فتح
مُحارِب

سلطنت عثمانیہ

امارت درعیہ (پہلی سعودی ریاست)
کمان دار اور رہنما
طوسون پاشا
احمد بوناپارٹ
مسعود بن مضیان Executed
طاقت
20,000 سپاہی 7,000 سپاہی
ہلاکتیں اور نقصانات
50 مقتول 4,000 مقتول

پسِ منظر

ترمیم

وادیٔ الصفرہ کے معرکہ میں شکست کے بعد طوسون پاشا نے باقی ماندہ فوج کے ہمراہ ینبوع کی سمت پسپائی اختیار کی اور وہاں قلعہ بندی کے انتظامات کیے۔ اُس کی آٹھ ہزار سپاہیوں پر مشتمل باقاعدہ فوج کے صرف تین ہزار سپاہی زندہ بچے تھے۔ اتنی تھوڑی فوج کے ساتھ وہ سعودیوں سے معرکہ کا خطرہ مول نہ لے سکتا تھا لہٰذا پہلی فرصت میں والد سے عسکری مدد طلب کی[2] اور شکست کا ملبہ جرنیلوں کے مابین اختلافات کی خلیج پر ڈال دیا۔ اس کثیر نقصان نے والیٔ مصر محمد علی کو صدمے سے دو چار کر دیا مگر اُس نے سعودیوں کے خلاف مہم جاری رکھی۔[2]

1812ء میں محمد علی نے 20 ہزار سپاہیوں کا ایک لشکر تیار کرایا جس کے اسلحہ خانہ میں 18 بندوقیں اور 3 مارٹرز شامل تھے[3]، یہ لشکر احمد بوناپارٹ نامی نومسلم کی قیادت میں طوسون پاشا کی مدد کے لیے روانہ کیا گیا۔[4] یہ امدادی لشکر جب طوسون تک پہنچا تو دونوں لشکر ایک ساتھ وادیٔ الصفرہ کی سمت پیش قدمی کرنے لگے اور کسی مزاحمت کے بغیر وادی پر قبضہ کر لیا۔ اس عرصہ میں بہت سے عرب قبائل جن میں بنو حرب اور بنو جهينہ قابلِ ذکر ہیں، عثمانیوں کی حمایت اور سعودیوں کی مخالفت میں مصری لشکر میں آ شامل ہوئے تھے۔[4][5]

واقعاتِ جنگ

ترمیم

وسط شوال 1227ھ (اکتوبر 1812ء)[6] میں طوسون نے ضروری جنگی تیاریوں سے فراغت پا کر مدینہ کی جانب کوچ شروع کیا۔ اُس کی فوج دِن کی روشنی میں قیام کرتی تھی جب کہ رات کی تاریکی میں سفر کرتی تھی تاکہ اپنی نقل و حرکت کی اطلاعات دشمن تک پہنچنے سے روک سکے۔ یہ کوچ تین راتوں تک جاری رہا، آخر لشکر مدینہ کی حدود کے قریب پہنچ گیا۔[5] شہر کی چھاؤنی شاہ سعود الکبیر نے 1226ھ (1811ء) میں دورانِ حج تعمیر کرائی تھی اور یہاں سات ہزار سپاہیوں کو متعین کیا تھا۔[7] اس دستے میں بیشتر سپاہیوں کا تعلق نجد، حجاز اور اس کے جنوبی علاقوں، بیشہ اور عسير سے تھا۔[8]

مدینہ کے دفاع پر مامور سعودی دستوں نے اُن پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں چند جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں احمد بوناپارٹ نے سعودیوں کا منہ پھیر دیا اور وہ فصیل میں بھاگ جانے پر مجبور ہو گئے۔ اُس زمانہ میں مدینہ فصیل کی چار دیواری میں قید تھا اور یہ فصیل نہایت مضبوط اور بلند و بالا دیواروں پر مشتمل تھی۔[9] چوں کہ شہر پر بمباری سے مسجد نبوی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا اور ادب و احترام کا تقاضا بھی تھا، لہٰذا مصری فوج نے فیصلہ کیا کہ شہر پر بمباری سے گریز کیا جائے۔ طوسون پاشا نے یہ منادی کرا دی کہ شہرِ رسول کے باشندے مزید نقصان سے بچنے کے لیے گھروں میں محصور رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔[5]

سعودی فوج 7 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔[8] سعودیوں کی مزاحمت آئندہ چودہ پندرہ دِنوں تک جاری رہی، [9] اس دوران اُنھیں پانی کی کمی اور بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ مصریوں نے مدینہ میں پانی کی فراہمی بھی روک رکھی تھی۔[8] فصیل میں نقب لگانے کی غرض سے طوسون نے سرنگوں کی کھدائی بھی شروع کرا دی۔ محصور فوج کو جلد سرنگوں کی کھدائی کا علم ہو گیا جس کے نتیجے میں کام روک دیا گیا۔ کھدائی کی دوسری کوشش کا آغاز نومبر کے مہینے میں ہوا جس میں مصری فوج کو کامیابی نصیب ہوئی اور فصیل کا ایک حصہ تباہ ہو گیا۔[5][9][8] فصیل کے شگاف میں سے مصری فوج شہر میں جا داخل ہوئی۔ سعودی فوج نے مزاحمت کی مگر ناکامی کا سامنا رہا اور میدان مصری فوج کے ہاتھ رہا۔ سعودی فوج کے ایک ہزار سپاہی کھیت رہے جبکہ مصری فوج کے صرف پچاس سپاہی کام آئے۔ سعودی فوج کے پندرہ سو سپاہی جو جان بچانے میں کامیاب رہے تھے، راہِ فرار اختیار کر کے نزدیکی قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے۔[9][8] دورانِ معرکہ، بیماری اور رسد کی کمی کے سبب سعودی سپاہیوں کے تین ہزار سپاہی وفات پا گئے تھے۔ اس طرح سعودیوں کے مجموعی نقصان کا تخمینہ چار ہزار سپاہیوں تک جا پہنچتا ہے۔[8]

مصری فوج کے پاس چوں کہ فصیل اُڑانے کے لیے مناسب ہتھیار اور توپیں نہ تھیں اس لیے وہ اس قلعہ کا محاصرہ کرنے پر مجبور ہو گئے جہاں باقی ماندہ سعودی فوج پناہ گزین تھی۔ یہ محاصرہ تین ہفتوں تک جاری رہا یہاں تک کہ رسد کی کمی سے عاجز آ کر سعودی فوج نے مصری فوج سے گفت و شنید کا آغاز کیا اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ اُنھیں جانوں کی حفاظت اور محفوظ رستہ فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ قلعہ خالی کر کے جانے دیا جائے۔ مصری فوج نے فوری یہ مطالبہ مان لیا اور سعودیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ جوں ہی تھکے ماندہ سعودی سپاہی امان کا وعدہ پا کر قلعہ سے باہر نکلے، احمد بوناپارٹ نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اُن پر حملہ کر دیا جس سے کثیر تعداد میں سعودی سپاہی قتل ہو گئے اور کچھ جانیں بچا کر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔[9] اس وعدہ خلافی نے مصریوں کے اتحادی عرب قبائل کو برانگیختہ کر دیا۔

امیرِ مدینہ کا قتل

ترمیم

اس معرکہ میں مسعود بن مضیان جو مدینہ میں پہلی سعودی ریاست کے امام اور شاہ سعود الکبیر کی جانب سے حاکم تعینات تھا، زندہ گرفتار ہوا۔ اُسے پا بہ جولاں حالت میں قسطنطنیہ لے جایا گیا جہاں اُسے سلطان کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔[9][10] مدینہ منورہ کی امارت پر والیٔ مصر کی جانب سے احمد بوناپارٹ کو تعینات کیا گیا جسے عرب احمد آغا کہنے لگے۔ یہ مرتبہ جنگ میں اُس کی پُرجوش کارروائیوں اور وعدہ خلافی سے سعودی سپاہیوں کے قتلِ عام کے صلہ میں عطا کیا گیا تھا۔

سعودی بادشاہ کے ہنگامی اقدام

ترمیم

جس وقت سقوطِ مدینہ کی خبر شاہ سعود تک پہنچی، وہ حج کی غرض سے سفر پر تھے۔ یہ اُن کا نواں اور آخری حج تھا۔ ابھی وہ مکہ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ سقوطِ مدینہ کی جانکاہ خبر اُن تک پہنچائی گئی۔ احساء، عمان، نجد، حجاز، تہامہ اور دیگر علاقوں سے لوگ جمع ہو ہو کر اُن سے آ ملے۔ شاہ نے اپنے فرزند عبد اللہ کو حکم دیا کہ وہ وادیٔ مرّ کا رُخ کرے اور اُس کے شمالی سمت قیام کرے تا کہ اُس مقام کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے اور مکہ کو فوجی مستقر بنانے کی ہدایت کی تا کہ شکست کی صورت میں سعودی افواہج وہاں پناہ لے کر جنگ جاری رکھ سکیں۔ اُس زمانہ میں غالب بن مساعد شریفِ مکہ تعینات تھا۔ سعودی بادشاہ نے اُس سے ملاقات کی اور اُسے تحفے تحائف سے نواز کر اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ آلِ سعود سے اپنی وفاداری برقرار رکھے۔ شاہ سعود نے خانہ کعبہ کو دیباج و حریر سے ڈھک دیا اور مکہ کی حفاظت پر سپاہیوں کے دستے تعینات کر کے اپنے دار الحکومت درعیہ کا رُخ کیا تا کہ اُن قبائل کو سزا دی جا سکے جنھوں نے عربوں سے غداری کر کے تُرکوں کا ساتھ دیا تھا اور مدینہ و ینبوع کے مابین واقع اسٹریٹجک نوعیت کے اہم علاقے مع وادیٔ صفرہ، دُشمن کے حوالے کر دیے تھے۔[11]

شریفِ مکہ کی غداری

ترمیم

حج کے خاتمہ اور شاہ سعود کی درعیہ واپسی پر شریفِ مکہ نے غداری کی روش اپنائی اور مصری فوج کے سالار کو خط لکھ کر کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر جدہ اور مکہ اُس کے حوالے کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔[12] عبد اللہ بن سعود کو جب شریفِ مکہ کی اس خیانت کا علم ہوا تو اُس نے شریف کو مکہ سے نکال باہر کیا اور وفادار سپاہی تعینات کر دیے۔[13] شاہ سعود نے تمام صورتِ حال سے واقف ہو کر دو مہمات جاری کیں، پہلی مہم اپنے بیٹے فیصل بن سعود کی قیادت میں طائف، عبیلا اور رنیۃ روانہ کی[14] جس کے ذمہ مکہ کی حفاظت بھی شامل تھی جبکہ دوسری مہم ربیع الآخر 1228ھ میں بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل روانہ کی گئی۔[15]

جنگ کے بعد

ترمیم

اس معرکہ کے نتیجے میں مدینہ منورہ کا مقدس شہر مصریوں اور عثمانیوں کے قبضہ میں واپس چلا آیا۔ وہابیوں اور اُن کے سرپرست سعودیوں کے خلاف جنگوں کے اس سلسلہ میں جسے تاریخ میں عثمانی-سعودی جنگ کے نام سے شہرت حاصل ہے، یہ قبضہ عثمانیوں اور مصریوں کی پہلی بڑی اور قابلِ ذکر فتح تھی۔ اس فتحِ عظیم کی خبر جلد قاہرہ میں پہنچ گئی اور مصر میں بڑے پیمانہ پر جشن منایا گیا۔ مدینہ پر قبضہ کے بعد عثمانی-مصری فوج نے الحناکیہ کا رُخ کیا اور جلد اُس پر بھی قبضہ کر لیا۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. موج تاريخ الوهابي، صفحہ 137
  2. ^ ا ب عصر محمد علي باشا، عبدالرحمان الرافعي، صفحہ 128
  3. Showalter, Professor Dennis (16 ستمبر 2013). Revolutionary Wars 1775–c.1815 (بانگریزی). Amber Books Ltd. ISBN:978-1-78274-123-7.تصنيف:اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر آرکائیو شدہ روابط پر مشتمل حوالہ جاتتصنيف:انگریزی (en) زبان پر مشتمل حوالہ جات
  4. ^ ا ب عنوان المجد في تاريخ نجد، ابن بشر، صفحہ 328
  5. ^ ا ب پ ت ٹ عصر محمد علي باشا، عبدالرحمان الرافعي، صفحہ 129
  6. برک ہارٹ, جان لیوس (1830). بدوؤں اور وہابیوں سے متعلق حواشی (بانگریزی). لندن: ہنری کولبرن اینڈ رچرڈ بینٹلے پبلشرز. p. 353.تصنيف:اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر آرکائیو شدہ روابط پر مشتمل حوالہ جاتتصنيف:انگریزی (en) زبان پر مشتمل حوالہ جات
  7. عنوان المجد في تاريخ نجد، ابن بشر، صفحہ 328-329
  8. ^ ا ب پ ت ٹ ث عنوان المجد في تاريخ نجد، ابن بشر، صفحہ 329
  9. ^ ا ب پ ت ٹ ث برک ہارٹ, جان لیوس (1830). بدوؤں اور وہابیوں سے متعلق حواشی (بانگریزی). لندن: ہنری کولبرن اینڈ رچرڈ بینٹلے پبلشرز. p. 354.تصنيف:اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر آرکائیو شدہ روابط پر مشتمل حوالہ جاتتصنيف:انگریزی (en) زبان پر مشتمل حوالہ جات
  10. تاريخِ عجائب الآثار في التراجم والاخبار، عبدالرحمان الجبرتي، صفحہ 411
  11. عنوان المجد في تاريخ نجد، ابن بشر، صفحہ 330-331
  12. وہابیوں کی مختصر تاریخ، ہارورڈ جونز، صفحہ 143
  13. عنوان المجد في تاريخ نجد، ابن بشر، صفحہ 331
  14. عصر محمد علي باشا، عبدالرحمان الرافعي، صفحہ 130
  15. عصر محمد علي باشا، عبدالرحمان الرافعي، صفحہ 131

24°28′N 39°36′E / 24.467°N 39.600°E / 24.467; 39.600