معمر بن راشد
معمر بن راشد یمن کے مشہور تبع تابعین میں سے ایک ہیں۔آپ ہمام ابن منبہ کے شاگرد ہیں آپ نے 153ھ میں وفات پائی۔
معمر بن راشد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 713ء بصرہ |
وفات | سنہ 770ء (56–57 سال) صنعاء |
عملی زندگی | |
نظام المدرسة | مدرسة الحديث |
أعمال | صنف جامع معمر بن راشد |
پیشہ | محدث |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [1] |
شعبۂ عمل | اسلام [2] |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمنام معمر، کنیت ابو عروہ اور والد کا اسم گرامی راشد تھا [3] بصرہ کے ایک شخص عبد السلام بن عبد القدوس کے غلام تھے۔ جنہیں خود قبیلہ ازد کی حدان نامی ایک شاخ سے نسبت ولأ حاصل تھی، اسی بالواسطہ نسبت کی وجہ سے ابو عروہ ازدی اور حدانی مشہور ہوئے ، بنو حدان میں آکر جس مقام پر آباد ہوئے تھے، وہ بھی محلہ حدان کہا جانے لگا تھا۔[4]
وطن اورولادت
ترمیم95ھ میں پیدا ہوئے، بصرہ کے رہنے والے تھے، لیکن پھر حالات سے مجبور ہو کر یمن میں مستقل بود وباش اختیار کرلی تھی۔ [5] اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ یمن کے اکابر شیوخ سے اکتساب فیض کرنے کے لیے وہاں گئے،پھر جب فارغ ہونے کے بعد وطن مالوف واپسی کا عزم کیا تو اہلِ صنعاء جو ان کے علم و فضل اور حسن اخلاق سے بے حد متاثر تھے۔ انھیں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے اور ایک شخص نے انھیں مستقل طور پر یمن میں روکنے کے لیے یہ ترکیب نکالی کہ ان کا عقد وہیں کر دیا۔ چنانچہ پھر یمن ہی ان کا وطنِ ثانی بن گیا۔
طلبِ علم
ترمیمابن راشد غلام ہونے کے باوجود تحصیل علم کی فطری استعداد اور بہت ذوق وشوق رکھتے تھے،بقول امام احمدؒ معمر اپنے عہد کے علما میں سب سے زیادہ علم حاصل کرنے والے اور اس کے جو یہاں رہتے تھے۔ [6]چنانچہ اسی لگن اور اخلاص کا ثمرہ تھا کہ یمن کا سفر کر کے اس کے مرکز علم سے مستفید ہونے والوں میں انھیں اولیت کا فخر حاصل ہے، یمن میں اس وقت مشہور صحابی رسولﷺ حضرت ابوہریرہؓ کے آغوشِ تربیت کے پروردہ ہمام بن منبہؒ کا فیض جاری تھا، معمرؒ ان سے پوری طرح مستفید ہوئے [7]اس کے علاوہ بصرہ میں قتادہ اور رصافہ میں امام زہری کی خدمت میں حاضر ہو کر خصوصی تلمذ کا شرف حاصل کیا تھا۔ حضرت قتادہ سے سماعِ حدیث کے وقت معمر کی عمر صرف 14 سال کی تھی، اس کم سنی میں انھوں ں نے شیخ مذکور سے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ آخر عمر تک مستحضر رہا جیسا کہ خود انھی کا بیان ہے۔سمعت قتادۃ ولی اربع عشرۃ سنۃ فما سمعتہ اذک کانہ مکتوب فی صدری [8] میں نے قتادہ سے چودہ سال کی عمر میں سماع حاصل کیا تھا اور ان سے میں نے اس وقت جو کچھ سُنا تھا وہ گویا میرے قلب پر نقش ہو گیا تھا۔
تحصیل علم
ترمیمانھیں تحصیل علم کا سنہرا موقع میسر آیا قوت حفظ وضبط اور فہم و فراست کی دولت سے مالا مال تھے۔ اس کی وجہ سے جب وہ مرکز علم بصرہ اور اس عہد کے دوسری علمی مراکز میں پہنچے تو وہاں کے شیوخ سے بڑے ذوق و شوق سے علم کی دولت حاصل کی اور اپنے وقت کے عظیم محدث و شیخ بن گئے معمر کا یہی ذوق طلب جس نے انھیں مدینہ منورہ اور پھر یمن کا سفر کر ایا عبد الواحد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے معمر سے پوچھا آپ کو امام زہری سے علم حاصل کرنے کا اتفاق کیسے ہوا تو بتایا کہ میں ایک شخص کا غلام تھا اس نے مجھے کپڑے فروخت کرنے کے لیے مدینہ منورہ بھیجا میں نے جس محلہ میں کاروبار شروع کیا تھا وہاں ایک شیخ رہتے تھے جن کے پاس لوگ بکثرت علم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے میں نے اس موقع کو غنیمت جان کر علم حاصل کرنا شروع کیا
یمن میں سکونت
ترمیممدینہ منورہ کے بعد معمر علم حاصل کرنے کے لیے یمن پہنچے جب وہ بصرہ لوٹنے لگے تو صناء کے باشندوں نے آپ کی علمی جلالت کی وجہ سے وہاں ٹھہرانے کا ارادہ کیا مرکزی شہر صنعاء کے قدر شناس اصحاب نے انھیں روکنے کے لیے شادی کر دی چنانچہ امام معمر نے صنعاء میں بودوباش اختیار کرلی۔
شیوخ و اساتذہ
ترمیمآپ کے شیوخ کے اسمائے گرامی ثابت بنانی، قتادة، امام زہری، عاصم احول ، ايوب سختیانی، جعدہ ابی عثمان، زيد بن اسلم ، صالح بن كيسان ، عبد اللہ بن طاوس ، جعفر بن برقان ، حكم بن ابان ، اشعث بن عبد اللہ حدانی ، اسماعيل بن اميہ ، ثمامہ بن عبد اللہ بن انس ، بهز بن حكيم ، سماک بن فضل ، عبد اللہ بن عثمان بن خثيم ، عبد اللہ بن عمر العمری ، يحيى بن ابی كثير ، همام بن منبہ ، هشام بن عروة ، محمد بن منكدر ، عمرو بن دينار ، عطاء خراسانی ، عبد الكريم الجزری۔
فضل وکمال
ترمیمطلب علم میں اس کا جانکاہ محنت ولگن کے نتیجہ میں وہ فضل وکمال کے آسمان پر خورشید تاباں بن کر چمکے اور زبان خلق نے انھیں عالم الیمن کے لقب سے سرفراز کیا ، ابن جریج جیسے منتخب روزگار امام بھی معمر کی توصیف میں رطب اللسان ہیں؛چنانچہ وہ اپنے تلامذہ سے اکثر فرمایا کرتے تھے۔ علیکم بمعمر فانہ لم یبق فی زمانہ اعلم منہ [9]معمر کے فیضِ صحبت سے مستفید ہو ، اس لیے کہ اپنے زمانہ میں ان سے بڑا کوئی عالم نہیں رہا۔ امام احمدؒ کا بیان ہے کہ ہم جب بھی معمرؒ کا دوسرے اہلِ علم سے موازنہ کرتے تو ہمیشہ معمر کو فوقیت حاصل ہوتی [10] ابن عماد حنبلیؒ ان کو "عالم الیمن ثقہ ورع"اور حافظ ذہبیؒ "احد الاعلام الثقات الامام الحجۃ" لکھتے ہیں۔ [11]
حدیث
ترمیمعلم حدیث اوراس کے متعلقات میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا، ہزاروں حدیثیں ان کے خزانہ دماغ میں محفوظ تھیں، عبد الرزاق بن ہمام بیان کرتے ہیں کہ: کتبت مع معمر عشرۃ الاف حدیث [12] میں نے معمرؒ سے دس ہزار حدیثیں لکھی ہیں۔ ان کے شیوخ حدیث کی تعداد بہت زیادہ ہے، جن میں اکابر تابعین اور ممتاز اتباع تابعین کی کافی تعداد شامل ہے، امام زہری ، ہشام بن عروہ، قتادہ ، عمرو بن دینار، یحییٰ بن کثیر، ہمام بن منبہ ، ثابت البنانی، عاصم الاحول ، ابو اسحاق السبیعی ، ایوب السختیانی ،زید بن اسلم، صالح بن کیسان ، عبد اللہ بن طاؤس، سماک بن الفضل، اسماعیل بن علیہ، محمد بن المنکدر، کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں اورخود معمر کے فیضان صحبت سے شاد کام ہونے والوں میں سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، غندر ، عبدالرزاق بن ہمام، سفیان بن عیینہ، ہشام بن یوسف، اسماعیل بن علیہ، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، ابن جریج، امام شعبہ، عیسیٰ بن یونس، معتمر بن سلیمان، محمد بن ثور اور عبد اللہ بن معاذ کے نام نمایاں ہیں، علاوہ ازیں معمر کے شیوخ میں سے یحییٰ بن کثیر ابو اسحاق سبیعی، ایوب سختیانی اور عمرو بن دینار نے بھی بایں ہمہ تبحر علم وفن ان سے روایت کی ہے،جو معمر کے علو مرتبت اور بلندی شان کی بین دلیل ہے۔[13]
ثقاہت
ترمیماکثر علمائے جرح و تعدیل نے ان کی توثیق کی ہے، بالخصوص امام زہریؒ سے ان کی مرویات کا پایہ نہایت بلند ہے، ابن معینؒ کا بیان ہے کہ: "معمر اثبت الناس فی الزھری" [14] عجلی کا قول ہے: بصری سکن الیمن ثقۃ رجل صالح [15]وہ بصرہ کے رہنے والے تھے یمن میں سکونت اختیار کرلی تھی،ثقہ اور نیک انسان تھے۔ امام نسائیؒ کہتے ہیں "ھوثقۃ مامون"[16] علی بن مدینی اور ابو حاتم معمر کا شمار ان علمائے کبار میں کرتے تھے،جن پر مشیخت اسناد ختم تھی۔ [17]
مناقب وفضائل
ترمیمان گونا گوں علمی کمالات کے علاوہ ابن راشد اور بھی بہت سی انسانی خوبیوں کے حامل تھے، نیک طینتی، تقویٰ، صالحیت اور بلند ظرفی ان کے خاص جوہر تھے، حافظ ذہبی اور علامہ یافعی خامہ ریز ہیں "کان معمر صالحاً خیراً" [18] ابن سعد لکھتے ہیں: کان معمر جلالہ قدر ونبل فی نفسہ [19]اہلِ یمن انھی محاسن و اوصافِ حمیدہ کی بنا پر ان کے والہ وشیفتہ ہو گئے تھے، استغناء اور اخفائے عمل خیر کا یہ عالم تھا کہ ایک بار حاکمِ یمن، معن بن زائدہ نے انھیں کچھ سونا ہدیۃً بھیجا، معمر نے اسے نہ صرف واپس کر دیا؛ بلکہ اپنی شریک حیات کو سختی سے تنبیہ کر دی کہ اگر تم نے کسی کو یہ بات بتائی،تو میں سخت اقدام کروں گا۔ [20]
وفات
ترمیمآپ نے 58 سال کی عمر میں 153ھ میں وفات پائی۔[21]رمضان 153ھ میں ان کا آفتاب حیات غروب ہو گیا [22] وفات کے وقت 58 سال کی عمر تھی۔ [23]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015880093 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015880093 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
- ↑ (شذرات الذہب:1/235)
- ↑ (اللباب فی الانساب :1)
- ↑ (الاعلام:3/1058)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/244)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/221،ومرأۃ الجنان:1/303)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/171 ومیزان الاعتدال:3/188)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/245)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/220)
- ↑ (شذرات الذہب:1/235،ومیزان الاعتدال:3/)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/171)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/244 ومرأۃ الجنان :1/323)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/171،ومیزان الاعتدال:3/188)
- ↑ (خلاصہ تذہیب وتہذیب الکمال:384)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10244)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/221 ومراۃ الجنان:1/223)
- ↑ (طبقات ابن سعد:5/397)
- ↑ (میزان الاعتدال:3/188)
- ↑ محدثین عظام و حیات و خدمات، صفحہ 77ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی، النوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی بلال گنج لاہور
- ↑ (العبر:1/320 ومرأۃ الحنان:1/323)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/245)