ملک اسحاق (1959ء – 29 جولائی، 2015ء) لشکر جھنگوی تنظیم کے بانی و سابقہ امیر۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے سپاہ صحابہ کی قیادت پر مقدمات بننے لگے اور حکومتی دباو میں اضافہ ہوا تو مولانا ضیاءالرحمان فاروقی نے 1996ء میں ملک اسحاق، اکرم لاہوری (جو اس وقت سکهر جیل میں قید ہے) اور ریاض بسرا کی سرپرستی میں سپاہ صحابہ سے الگ تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی،[1]، جو بظاہر ایک الگ تنظیم تھی مگر اس کے کارکنان کو قانونی اور مالی پشت پناھی سپاہ صحابہ ہی دیا کرتی تھی۔ اس تنظیم کو پاکستان، امریکا، یورپی یونین، آسٹریلیا وغیرہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔[2] اور پاکستان میں اس کی سرگرمیوں پر قانونی طور پر پابندی ہے۔ ملک اسحاق آخری تین سال زیر حراست و نظر بند رہے ۔ 29ء جولائی 2015ء کو پنجاب پولیس ان کو اسلحہ برآمدگی کے لیے لے کر گئی۔ جہاں پر پہلے سے موجود افراد نے پولیس پر گولیاں چلائیں پولیس مقابلہ میں دیگر افراد کے ساتھ ملک اسحاق اور ان کے دو بیٹے بھی ہلاک ہو گئے۔[3][4][5]

ملک اسحاق
2011ء میں

معلومات شخصیت
پیدائش 1959
رحیم یار خان، پنجاب، پاکستان
تاریخ وفات 29 جولائی 2015(2015-70-29) (عمر  55–56 سال)
قومیت پاکستان
مذہب دیوبندی
جماعت سپاہ صحابہ
لشکرجھنگوی   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عثمان 
حق نواز 
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری لشکرجھنگوی   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سیاسی زندگی

ترمیم

ملک اسحاق اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے تھے، مگر اپنے شدت پسند ساتھیوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہے۔ان پر دہشت گردی کے 50 سے زائد مقدمات تھے، آخری چار برس وہ جیل میں رہے، رہائی کے بعد انھوں نے شدت کا راستہ ترک کر کے سیاسی راہ اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محمد احمد لدھیانوی جیل میں ملک اسحاق سے اکثر ملاقاتیں کرتے رہے اور انھیں سیاست میں آنے پر قائل کرتے رہے۔ رہائی کے بعد سیاست میں آنے کے لیے ان کا فطری انتخاب اپنے شدت پسند گروہ کا سیاسی بازو، سپاہ صحابہ (موجودہ نام:اہل سنت و الجماعت) تھا، جس کی سربراہ محمد احمد لدھیانوی ہیں۔ ملک اسحاق نے جلد ہی اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور سپاہ صحابہ کی رکنیت حاصل کی اور اس کی شوریٰ میں شامل ہو گئے۔ ملک اسحاق کا خیال تھا کہ وہ بہت جلد اس جماعت میں اپنا مقام حاصل کر لیں گے 2013ء کے انتخابات کے دوران وہ خود یا اپنے بیٹوں کو سپاہ صحابہ کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ میں بھجوا سکیں گے۔جلد ہی محمد احمد لدھیانوی گروپ ملک اسحاق کے ان عزائم کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ ان دونوں کے درمیان اس موضوع پر اختلافات پیدا ہوئے اور اگلے چند ماہ تک لدھیانوی اور ملک اسحاق گروپ تکرار کرتے رہے اور آخر کار 2012ء میں ملک اسحاق کو سپاہ صحابہ کی شوریٰ سے برطرف کر دیا گیا۔ملک اسحاق نے بدلے میں بہت سے ایسے کارکن اپنے ساتھ شامل کر لیے جو محمد احمد لدھیانوی کے اس فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے تھے کہ اپنے فرقہ وارانہ مقاصد کے حصول کا بہترین راستہ پارلیمنٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ملک اسحاق نے اس فلسفے کی کھل کر مخالفت شروع کی، اپنی شوریٰ بنائی اور جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان کو اپنا مرکز قرار دے کر وہاں سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ ملک اسحاق تیزی کے ساتھ نئے کارکن بھی بھرتی کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک اسحاق اور لدھیانوی گروپ کے درمیان جھگڑا شروع ہوا جس میں ایک دوسرے پر قاتلانہ حملے ہوئے اور دونوں طرف کے بعض کارکن مارے گئے۔[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Briefly: Asia"۔ Washington Times۔ 2011-07-14۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولا‎ئی 2013 
  2. بی بی سی اردو، 29 جولائی 2015ء
  3. "LeJ cheif Malik Ishaq killed in police encounter in Muzaffargarh"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2015 
  4. "مظفر گڑھ میں مبینہ پولیس مقابلے میں ملک اسحاق سمیت کالعدم تنظیموں کے 14 ملزمان ہلاک"۔ ایکسپریس اردو۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2015 
  5. AFP – news آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ skynews.com.au (Error: unknown archive URL) published by Sky News [Retrieved 2015-07-29]
  6. بی بی سی اردو، 29 جولائی 2015ء

ملک اسحاق پاکستان میں اہلسنت پر تشدد جو شیعہ نے شروع کیا اس کا رد عمل تھا