ملک سرور

جونپور سلطنت کے بانی اور پہلے حکمران

ملک سرور (وفات: نومبر 1399ء) جونپور سلطنت کے بانی اور پہلے حکمران تھے۔

ملک سرور
معلومات شخصیت
وفات نومبر1399ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جونپور ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ہندوستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت جونپور   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1394  – نومبر 1399 
عملی زندگی
پیشہ سلطان ،  گورنر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

ابتدائی حالات ترمیم

ملک سرور کی زندگی کے ابتدائی حالات پردۂ اَخفا ء میں ہیں البتہ اُس کی زندگی کے متعلق ابتدائی حقائق سلطان فیروز شاہ تغلق کے عہدِ حکومت میں تاریخ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ملک سرور مخنث تھا اور اِسے سید رجب علی نے سلطان فیروز شاہ تغلق کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان غیاث الدین تغلق شاہ کے بھائی سپہ سالار رجب نے سلطان محمد بن تغلق کی خدمت میں پیش کیا تھا مگر بعض روایات میں ہے کہ ملک سرور سلطان سلطان غیاث الدین تغلق شاہ کے بھائی سپہ سالار رجب کا غلام تھا اور جس نے اُس کو سلطان محمد شاہ تغلق کی خدمت میں پیش کیا تھا لیکن شجرۂ خاندانی راجا سید اِرادت جہاں (قلمی) احوال جونپور (قلمی) ، بیان الانساب سادات زیدیہ (مطبوعہ)، سلاطین جونپور (قلمی)، مرآۃ الاسرار (قلمی) اور تاریخ مبارک شاہی کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سید رجب علی جو سید خضر خاں والیٔ ملتان کی بہن کے خاوند تھے۔ انھوں نے اُس کو سلطان فیروز شاہ تغلق کی خدمت میں پیش کیا تھا اور سلطان مبارک شاہ شرقی اور اُن کے بھائی ابراہیم شاہ شرقی سید رجب علی کے فرزند تھے بلکہ سلطان ابراہیم شاہ شرقی اپنے ماموں سید خضر خاں کے داماد بھی تھے۔ [1] [2]

سلاطین دہلی کے عہدہائے حکومت میں ترمیم

سلطان مذکور نے اُس کی فرماں برداری اور دیانتداری سے خوش ہوتے ہوئے جلد ہی اُسے شاہی جواہرات و زیورات کی نگہبانی پر بطور محافظ مامور کر دیا۔اِس عہدہ پر ملک سرور نے بڑی خوش اَسلوبی سے فرائض سر انجام دیے۔ سلطان فیروز شاہ تغلق نے اُس کی قابلیت اور اِنتظام سے متاثر ہوتے ہوئے مزید ترقی دیتے ہوئے شہر دہلی کا گورنر مقرر کر دیا۔ ملک سرور نے اِس عہدہ پر بھی بڑی خوش اَسلوبی سے فرائض سر انجام دیے اور اِس عہدہ پر وہ سلطان فیروز شاہ تغلق کی وفات (1388ء) کے بعد سلطان ابو بکر شاہ کے عہد میں بھی متمکن رہا۔ سلطان ابو بکر شاہ پانچ ماہ کے بعد قتل ہو گیا اور اُس کی جگہ بڑی تگ و دو کے بعد سلطان ناصر الدین محمد شاہ سوم تخت نشین ہوا۔ اِس خانہ جنگی میں چونکہ ملک سرور نے سلطان ناصر الدین محمد شاہ سوم کی کھلم کھلا مدد کی تھی، اِس لیے سلطان مذکور نے ملک سرور کو خواجہ ٔ جہاں کا خطاب دے کر پہلے نائب وزیر اور کچھ عرصہ بعد اسلام خاں کی جگہ اپنا وزیر سلطنت منتخب کر لیا۔ عہدۂ وزارت پربھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے اور اپنے مُرَّبی کی وفات کے بعد سلطان علاؤ الدین سکندر شاہ ہمایوں خان (1393ء) اور پھر سلطان ناصر الدین محمود شاہ تغلق کے عہد ِ حکومت یعنی 1394 سے 1413ء میں بھی دو مہینوں تک اِس عہدہ پر فائز رہا۔ بعد میں صوبہ اَوَدھ کے سیاسی حالات دوبارہ خراب ہو گئے اور وہاں کے ہندو جاگیرداروں اور ہندوؤں نے مسلمانوں پر پہلے کی طرح ظلم و ستم کرنا شروع کر دیا تو سلطان ناصر الدین محمود شاہ تغلق نے ملک سرور کو سلطان الشرق کا خطاب دے کر جونپور کا گورنر مقرر کر دیا اور مختصر سی فوج ساتھ دے دی تاکہ وہ وہاں پہنچ کر انتظامات کو درست کرکے امن و اَمان بحال کرسکے۔ سلطان الشرق ملک سرور نے اُس مختصر سی فوج کے ساتھ مئی 1394ء میں دہلی سے جونپور کا سفر اختیار کیا۔ راستے میں پہلے کول (علی گڑھ)، کھور (شمس آباد) ، ایٹاوہ اور کمپل کے باغیوں کی سرکوبی کی۔ اور دالمؤ، کڑہ، بہرائچ، قنوج، سندیلہ اور اَوَدھ کے باغیوں کے خلاف بھی لشکرکشی کی۔کچھ عرصہ بعد اوڑیسہ اور لکھنؤتی (لکھنؤ) کے حکمرانوں کی بھی گوشمالی کی اور انھیں دوبارہ سلاطین دہلی کا باجگزار بنا دیا۔ لیکن اِس دوران دہلی کے سیاسی حالات خراب ہو گئے اور وہاں سلطان محمود شاہ کے مقابلہ میں نصرت شاہ تخت دہلی کا دعویدار بن گیا۔ ابھی یہ سیاسی کشمکش جاری تھی کہ امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ اِن حالات سے دل برداشتہ ہوکر سلبان محمود شاہ مالوہ فرار ہو گیا اور دہلی پر امیر تیمور کا قبضہ قائم ہو گیا۔ سلطنت تغلق اور دہلی کے اِن حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جب صوبائی گورنروں نے یکے بعد دیگرے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تو سلطان الشرق نے بھی یہ موقع مناسب جانتے ہوئے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور اتابکِ اعظم کا لقب اِختیار کرتے ہوئے اپنے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کر دیا۔ [3]

بحیثیت سلطان جونپور ترمیم

آغاز میں ملک سرور سلطان الشرق کی سلطنت میں شمالی اور جنوبی بہار، ترہت ، قنوج کے گرد و نواح، بھوج پور ، اجین کی سرحد تک، پھر روہیل کھنڈ، بندھیل کھنڈ کے علاقے شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد اُس نے کول (علی گڑھ)، سنبھل اور راپری کو بھی فتح کر لیا۔گویا زمانہ عروج میں اُس کی سلطنت کی حدود شمال میں علی گڑھ سے لے کر بنگال تک اور کوہِ ہمالیہ کے دامن سے مالوہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔[4]

وفات ترمیم

ملک سرور سلطان الشرق اپنے زمانہ عروج میں ماہِ نومبر1399ء میں جونپور میں اِنتقال کرگیا۔ [5]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. The Sharqi Sultanate of Jaunpur, A Political and Cultural History, p. 20-36
  2. میاں محمد سعید: تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور، ص 81۔ مطبوعہ لاہور، ستمبر 1976ء
  3. میاں محمد سعید: تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور، ص 82-83۔
  4. میاں محمد سعید: تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور، ص 83-84۔
  5. میاں محمد سعید: تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور، ص 84۔
ملک سرور
 وفات: نومبر 1399ء
مذہبی القاب
ماقبل  سلطان جونپور سلطنت
1394ءنومبر 1399ء
مابعد