منظور حسین شور
پروفیسر منظور حسین شور (پیدائش: جولائی، 1910ء - وفات: 8 جولائی، 1994ء) اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، نقاد اور ماہرِ تعلیم تھے۔
منظور حسین شور | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | جولائی1910ء امراوتی ، برطانوی ہند |
تاریخ وفات | 8 جولائی 1994ء (83–84 سال) |
مدفن | سخی حسن |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
پیشہ | شاعر ، ادبی نقاد ، پروفیسر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی |
ملازمت | راشٹرسنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی ، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد ، جامعہ کراچی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیممنظور حسین شور جولائی، 1910ء کو امراوتی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1]۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو، فارسی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1938ء میں ناگپور یونیورسٹی کے شعبۂ ادبیات فارسی او راردو میں بطور ریڈر صدر شعبہ تقرر ہوا۔ اس کے علاوہ وہ جامعہ عثمانیہ سے بھی منسلک رہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج گجرات، پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد شور کراچی آ گئے اور جامعہ کراچی میں وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔[2]
شور نظم اور غزل پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ جدید تراکیب کی ان کے کلام میں فراوانی پائی جاتی۔ ان کی نظموں میں جوش ملیح آبادی کی طرح گھن گھرج بھی ہوتی ہے اور فکری رفعت بھی۔[3] ان کا پہلا شعری مجموعہنبض دوراں کے نام سے 1959ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دیوار ابد، سوادِ نیم تنا، میرے معبود، صلیب انقلاب اور ذہن وضمیر شائع ہوئے۔[2]
تصانیف
ترمیم- نبضِ دوراں (1959ء)
- دیوارِ ابد (1969ء)
- سواد نیم تنا (1983ء)
- میرے معبود (1984ء)
- صلیب انقلاب (1985ء)
- ذہن و ضمیر (1991ء)
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئے | ہم فریبِ زندگی میں آ گئے | |
جب ہجومِ شوق سے گھبرا گئے | کھو گئے خود اور تم کو پا گئے | |
چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے | میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے | |
میں کہاں جاؤں نظر کو کیا کروں | آپ تو ساری فضا پر چھا گئے | |
دل ہی دل میں اف وہ درد ناگہاں | آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھا گئے | |
رخ سے آنچل بھی نہ سرکا تھا ابھی | نیچی نظریں ہو گئیں شرما گئے | |
اف یہ غنچوں کاتبسم یہ بہار | حیف اگر یہ غنچے کل مرجھا گئے | |
جس قدر غنچے کھلے تھے نو بہ نو | میری آنکھوں سے لہو برسا گئے | |
پوچھتے کیا ہو ان اشکوں کا سبب | واقعاتِ رفتہ پھر یاد آ گئے | |
اب تو شور اپنا فسانہ ختم کر | ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے |
وفات
ترمیممنظور حسین شور 8 جولائی، 1994ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ پبلی کیشنز کراچی، 2010ء، ص 746
- ^ ا ب پ شور علیگ، ریختہ ویب ڈاٹ کام، بھارت
- ↑ نعیم الحق صبا ضیائی، دبستانِ کراچی کے ممتاز شعرا (حصہ اول)، بزمِ شعور و دانش کراچی، 1990ء، ص 35