منظور حسین شور

پاکستانی شاعر

پروفیسر منظور حسین شور (پیدائش: جولائی، 1910ء - وفات: 8 جولائی، 1994ء) اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، نقاد اور ماہرِ تعلیم تھے۔

منظور حسین شور
معلومات شخصیت
پیدائش جولا‎ئی1910ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امراوتی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 8 جولا‎ئی 1994ء (83–84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سخی حسن   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  ادبی نقاد ،  پروفیسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت راشٹرسنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی ،  جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد ،  جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

منظور حسین شور جولائی، 1910ء کو امراوتی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1]۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو، فارسی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1938ء میں ناگپور یونیورسٹی کے شعبۂ ادبیات فارسی او راردو میں بطور ریڈر صدر شعبہ تقرر ہوا۔ اس کے علاوہ وہ جامعہ عثمانیہ سے بھی منسلک رہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج گجرات، پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد شور کراچی آ گئے اور جامعہ کراچی میں وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔[2]

شور نظم اور غزل پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ جدید تراکیب کی ان کے کلام میں فراوانی پائی جاتی۔ ان کی نظموں میں جوش ملیح آبادی کی طرح گھن گھرج بھی ہوتی ہے اور فکری رفعت بھی۔[3] ان کا پہلا شعری مجموعہنبض دوراں کے نام سے 1959ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دیوار ابد، سوادِ نیم تنا، میرے معبود، صلیب انقلاب اور ذہن وضمیر شائع ہوئے۔[2]

تصانیف

ترمیم
  • نبضِ دوراں (1959ء)
  • دیوارِ ابد (1969ء)
  • سواد نیم تنا (1983ء)
  • میرے معبود (1984ء)
  • صلیب انقلاب (1985ء)
  • ذہن و ضمیر (1991ء)

نمونۂ کلام

ترمیم

غزل

دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئےہم فریبِ زندگی میں آ گئے
جب ہجومِ شوق سے گھبرا گئےکھو گئے خود اور تم کو پا گئے
چین بھی لینے نہیں دیتے مجھےمیں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے
میں کہاں جاؤں نظر کو کیا کروںآپ تو ساری فضا پر چھا گئے
دل ہی دل میں اف وہ درد ناگہاںآنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھا گئے
رخ سے آنچل بھی نہ سرکا تھا ابھینیچی نظریں ہو گئیں شرما گئے
اف یہ غنچوں کاتبسم یہ بہارحیف اگر یہ غنچے کل مرجھا گئے
جس قدر غنچے کھلے تھے نو بہ نومیری آنکھوں سے لہو برسا گئے
پوچھتے کیا ہو ان اشکوں کا سببواقعاتِ رفتہ پھر یاد آ گئے
اب تو شور اپنا فسانہ ختم کران کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے

وفات

ترمیم

منظور حسین شور 8 جولائی، 1994ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ پبلی کیشنز کراچی، 2010ء، ص 746
  2. ^ ا ب پ شور علیگ، ریختہ ویب ڈاٹ کام، بھارت
  3. نعیم الحق صبا ضیائی، دبستانِ کراچی کے ممتاز شعرا (حصہ اول)، بزمِ شعور و دانش کراچی، 1990ء، ص 35