موت کی دھمکی
موت کی دھمکی (انگریزی: Death threat) ایک طرح کی دھمکی ہے، جو اکثر گم نامی میں کسی ایک شخص یا لوگوں کے گروہ کی جانب سے دی جاتی ہے کہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کا قتل کیا جا سکتا ہے۔ ان دھمکیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اکثر متاثرہ شخص کو ڈرایا جا سکے کہ اس کے رویے میں بدلاؤ لایا جا سکے اور اس طرح موت کی دھمکی ایک طرح سے زور زبر دستی کا معاملہ ہے۔ مثلًا کسی عوامی شخصیت کو موت کی دھمکی دی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی مجرمانہ تحقیق بند کی جائے یا کوئی حمایتی مہم بند کی جائے۔ زیادہ تر قوانین کے تحت موت کی دھمکی ایک سنگین اور قابل سزا جرم ہے۔
بھارت میں موت کی دھمکیوں کی کچھ مثالیں
ترمیمبالی وڈ کے مشہور ادا کار سلمان خان 1998ء میں کالے ہرن کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے۔ اس کے بعد فیس بک پرجان سے ماردینے کی انھیں دھمکی ملی تھی جس کے بعد پولیس متحرک ہو گئی تھی۔ یہ اسٹوڈنٹ آف پنجاب یونیورسٹی (سوپو) کے فیس بک پیج پرلکھی گئی۔ یہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔یہ پوسٹ گیری شوٹر کی جانب سے لکھا گیا تھا۔ آئی اے این ایس رپورٹ کے مطابق اس پوسٹ کے ساتھ سلمان خان کی تصویر بھی تھی۔[1]
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کنہیا کمار اور عمر خالد کو پستول کے ساتھ موت کی دھمکی دی گئی تھی، کیوں کہ ان لوگوں پر الزام ہے انھوں نے جامعہ میں بھارت مخالف نعروں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس معاملے میں دو افراد گرفتار ہوئے تھے۔[2]
اتر پردیش میں مہلوک ہندو سماج پارٹی قائد کملیش تیواری کی اہلیہ کرن تیواری کو موت کی دھمکیاں موصول ہونے کا دعوٰی کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کملیش کو دن دہاڑے گذشتہ اکتوبر 2019ء میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان پر اسلام اور پیغمبر اسلام پر نازیبا تبصروں کی وجہ سے جہاں ایک جانب موت کے فتوے جاری تھے تو دوسری جانب ان کے بھارتیہ جنتا پارٹی اور کچھ ہندو قائدین سے بھی کشیدہ تعلقات تھے۔ ریاستی حکومت نے کملیش کو فراہم کردہ صیانتی انتظامات کافی کم کر دیے اور ان کی ہلاکت کے وقت صرف ایک پولیس سپاہی ان کے یہاں تھا۔ کملیش کی اہلیہ کرن تیواری کے بہ موجب جو اب ہندو سماج پارٹی کی صدر بنی تھی۔ انھیں لاتور، مہاراشٹر سے موت کی دھمکی موصول ہوئی ہے۔ یہ خط گنیش ناگ راؤ نامی شخص کی جانب سے تحریر کردہ ہے جس کے 9 کے منجملہ 2 صفحات اردو میں تحریر کردہ ہیں۔[3]