می ٹو تحریک دنیا کے کئی ممالک میں ٹویٹر کے ایک ہیش ٹیگ کے ساتھ چلائی جانے والی بر سر آوردہ مردوں کی جنسی ہراسانی کے خلاف تحریک کا نام ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح یہ تحریک نیپال میں زور پکڑنے کی بڑی وجہ پڑوسی ملک بھارت کی می ٹو تحریک ہے، جس میں بھی سرکردہ شخصیات کے نام منظر پر آئے۔ اسی تحریک کی وجہ بھارت کے وزیر خارجہ ایم جے اکبر کو اپنے عہدے سے 2018ء میں استعفٰی دینا پڑا تھا اور اس تحریک کے دوران کم از کم 19 خواتین اکبر پر ہراسانی اور نازیبا سلوک کی داستانوں کو بیان کیا تھا، جو ملک کے مرکز میں بر سر اقتدار نریندر مودی حکومت کی اولین میعاد میں شرمندگی کا باعث بھی تھا۔[1]

نیپال میں می ٹو کا آغاز

ترمیم

حالاں کہ بھارت کی می ٹو تحریک کی نوک پر کئی سرکردہ مرد جیسے کہ ایم جے اکبر، ساجد خان، نانا پاٹیکر، آلوک ناتھ، وکاس بہل، وکرمادتیا موٹوانے، انوراگ کشیپ، لو رنجن، اومیش گھڑگے، ورون گروور، شام کوشل، پیوش مشرا، مکیش چھابرا، وکی سدانا، اتسو چکروبورتی، ننمے بھٹ، گر سمرن کھمبا وغیرہ کے علاوہ مزاحیہ فن کارہ کنیز سُرکا نے ساتھی مشہور مزاحیہ فن کارہ ادتی متل پر نازیبا جنسی سلوک کا الزام عائد کیا تھا[2]، تاہم نیپالی میڈیا کی اولین توجہ ایم جے اکبر اور ان پر عائد الزامات منسوبہ رہے اور اکبر کا وزارت سے استعفا حوصلے کا باعث رہا۔ اس واقعے متاثر ہو کر 2018ء میں دو خاتون صحافی انگریزی اخبار میں موضوعاتی لکھاری اُجالا مہارجن اور کاٹھمنڈو میٹروپالیٹن سٹی آفس کی ملازمہ رشمیلا پرجا پتی نے کیشو استھاپت پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے سماجی میڈیا میں اپنے الزامات کو پوسٹ کیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی نیپالی خواتین نے اپنی ہراسانی کی داستانوں کو بیان کیا۔ ان میں سے کچھ نے مبینہ ہراسانی کرنے والے کے نام بھی لیے، جب کہ کئی نے نام کو مخفی رکھا۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ نیپالی سماج میں خواتین کو اس درجہ اہمیت حاصل نہیں کہ وہ طاقت ور مردوں سے گھٹنے ٹیکوا سکیں۔ [1] [3]

تحریک کی ناکامی

ترمیم

فروری 2020ء میں کانتی پور کانکلیو انعقاد نیپال میں ہوا جس میں ملک کی سرکردہ خواتین نے اپنے خیالات اس موضوع پر اظہار کیا کہ ‘Why #metoo movement failed to take off in Nepal’ یا ’نیپال میں می ٹو تحریک آغاز میں ہی کیوں ناکام ہوئی’۔ اس کانکلیو میں شریک سبھی خواتین نے مباحثے کے عنوان سے اتقاق کیا اور اس موقع ہر نیپال کی تھیٹر ہدایت کار اکنچھا کارکی نے کہا:

عورتوں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیوں اب لب کشائی کر رہی ہیں جب کہ وہ موقع واردات کے وقت خاموش رہی ہیں۔ تاہم لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس بات کے لیے کافی ہمت کی ضرورت ہے کہ جنسی سرگرمیوں کے بارے میں برسر عام گفتگو کی جائے کیوں کہ یہاں سماج میں یہ باتیں ممنوع سمجھی جاتی ہیں۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم