ہندوؤں میں ہریالی تیج کے دو چار روز بعد ناگ پنچمی (ہندی: नाग पंचमी‎) کا تہوار منایا جاتا ہے جس میں سانپوں سے حفاظت کی دعا کی جاتا ہے۔ ہندوؤں کے مطابق جس ملک میں وہ رہتے ہیں وہاں سانپ ان کے نہایت خوفناک دشمن ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ ان کو ڈس کر بھی ہلاک کر سکتے تو اس تہوار کی بدولت وہ سانپوں کے دیوتا ناگ سے اپنی حفاظت کی دعا کرتے ہیں۔ ہر جاندار اسی وقت ستاتا ہے جب وہ بھوکا یا دب جائے اسی لیے ناگ پنچمی پر بعض لوگ سانپوں کو دودھ پلاتے ہیں تاکہ وہ سیر ہو کر اپنا راستہ لیں اور کسی کو نہ ستائیں۔[1]

ناگ پنچمی
نیپال کے ضلع للت پور میں ناگ پنچمی کے تہوار پر ناگ مورتی پوجا
عرفیتناگ پوجا
منانے والےہندو
قسممذہبی، ہندوستانی اور نیپالی
اہمیت[1]
رسوماتپوجا کی مورتیاں یا زندہ کوبرا
تاریخقمری تقویم کے مہینے شراون کے پانچویں دن (پنچمی)

منائے جانے کی وجوہات

ترمیم

ناگ پنچمی کے متعلق مختلف خیالات ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1. بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس روز شری کرشن مہاراج نے کالی ناگ (कालिय नाग) کو جمنا میں ناتھا تھا اور چونکہ اس نے انھیں نہیں کاٹا اس لیے ہندو شکریہ کے طور پر سانپوں کو دودھ پلاتے ہیں۔
2. بعض کہتے ہیں کہ چونکہ سمندر منتھن (समुद्र मन्थन) کے وقت سانپ کی رسی سے بنائی گئی تھی جس کے باعث چودہ جواہرات سمندر سے نکلے اور مہا دیو نے زہر پینے کے بعد اپنے جسم پر سانپ لپیٹنے کے باعث زہر کی گرمی سے کسی قدر نجات حاصل کی تھی۔ اس لیے یہ تہوار بطور یادگار منایا جاتا ہے۔
3. سانپ کا نصف حصہ جسم ٹھنڈا ہوتا ہے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ سانپ زہریلی ہوا کھینچ کر اپنے جسم میں جذب کر لیتے ہیں۔ جہاں کالے ناگ رہتے ہیں وہاں کبھی کبھی خزانے بھی ملتے ہیں۔
4. راج دلاری رسالہ ”مان سروور“ میں لکھتی ہیں کہ یہ تہوار شیش ناگ کی بہن منسا دیوی (मनसा देवी) کے نام پر ہوتا ہے، اس دیوی کے تمام بدن پر سانپ لپٹے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اس کو سانپ کا زہر دور کرنے میں خاص دسترس ہے۔ ممالک متوسط میں اس دیوی کو کوئی نہیں جانتا۔ شمالی ہند کے بعض مقامات میں یہ تہوار منایا جاتا ہے۔[2]
5. بعض لوگوں کی رائے ہے کہ یہ تہوار اس وجہ سے منایا جاتا ہے کہ اس روز دیوی ستی بھگوان شنکر سے عرصہ مہاجرت کے بعد ملی تھیں اس خوشی میں اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص اس روز دعا مانگے گا وہ قبول ہو گی۔ مہاراشٹر میں اس کو ”سُوَرن گوری پوجا“ کہتے ہیں۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب منشی رام پرشاد صاحب ماتُھر۔ بی اے (علیگ)، ”ہندو تیوہاروں کی دلچسپ حقیقت“، مطبوعہ دی فائن لین پریس ہیوٹ روڈ لکھنؤ، 1946ء، صفحہ 55
  2. امنگ دی ہندوز صفحہ 121