نیکولاؤ منوچی
نیکولاؤ منوچی (19 اپریل 1638ء— 1717ء) اطالوی سیاح اور مؤرخ تھا جو مشرق میں سفر کرتا ہوا مغل ہندوستان پہنچا اور مغلیہ دربار سے طویل عرصہ تک وابستہ رہا، علاوہ ازیں منوچی داراشکوہ، شاہ عالم ثانی، راجا رائے سنگھ اور راجا کِیرت سنگھ کے درباروں سے بھی رابستہ رہا۔ منوچی کی ابتدائی زندگی اور اواخر زندگی کے حالات دستیاب نہیں ہو سکے ہیں اور یہ بات بدقسمتی سے کہنا پڑتی ہے کہ مغل ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے عہدِ زوال کو اپنی آنکھوں کو دیکھنے والے اتنے بڑے مؤرخ کے تفصیلی و جزئی حالات میسر نہیں آسکے۔
نیکولاؤ منوچی | |
---|---|
نیشنل لائبریری پیرس، فرانس میں منوچی کا خیالی عکس | |
پیدائش | 19 اپریل 1638ء وینس، موجودہ اطالیہ (اٹلی) |
وفات | 1717ء (عمر: 79 سال) مونٹے گرینڈ ، چینائی، حکومت نواب بنگال اور مرشدآباد، موجودہ تمل ناڈو، بھارت |
پیشہ | جغرافیہ دان، ماہر طبیعیات، مؤرخ، مہم جو، سیاح |
نسل | اطالوی |
نمایاں کام | فسانہ سلطنت مغلیہ – سنہ تحریر: 1698ء |
سالہائے فعالیت | غالباً جنوری 1656ء – 1717ء |
منوچی 19 اپریل 1638ء کو وینس میں پیدا ہوا۔ منوچی کا باپ پاسکوآلینو منوچی گرم مصالحوں کا کاروبار کرتا تھا اور منوچی کی ماں روزا بیلینی تھی۔ منوچی پانچ بہن بھائی تھے۔ 14 سال کی عمر میں وہ اپنے چچا کے ہمراہ کورفو، ازمیر گیا۔ اِس سفر میں منوچی ہنری برنارڈ وسکاؤنٹ بیلومینٹ سے ملا اور اُس کی شاگردی قبول کرلی۔ بیلومینٹ کے ہمراہ وہ اناطولیہ، بحیرہ قزوین پار کرکے فارس پہنچنا چاہتا تھا جس سے وہ مشرقی دنیا کو دیکھ سکے۔ وہ اپنے اِس ارادہ میں کامیاب رہا کہ اناطولیہ سے ہوتا ہوا بحیرہ قزوین پار کرکے فارس کے دار الحکومت اصفہان پہنچا، اِس سفر میں بیلومینٹ اُس کے ساتھ تھا۔ اصفہان 1655ء تک فارس کا دار الحکومت رہا۔ جنوری 1656ء میں منوچی بیلومینٹ کے ہمراہ مغل ہندوستان کی بندرگاہ سورت پہنچا۔ سورت سے منوچی نے شمالی ہندوستان کی جانب سفر اِختیار کیا۔1656ء کے اوائل مہینوں میں منوچی بیلومینٹ کے ساتھ شمالی ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوا۔ مارچ 1656ء کے بعد وہ آگرہ پہنچا مگر یہاں دم گھٹ کی بیماری سے وہ کافی پریشانِ حال رہا۔ آگرہ سے نکلا اور دہلی کو روانہ ہوا لیکن منزل پر پہنچنے سے قبل 20 جون 1656ء کو لارڈ بیلومینٹ کا اچانک راستے میں انتقال ہوا۔ دہلی میں منوچی کی ملاقات داراشکوہ سے ہوئی جو اُس وقت مغلیہ سلطنت کے ولی عہد کی حیثیت سے دہلی میں مقیم تھا اور یہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی حکومت کے اواخر سال تھے۔ داراشکوہ نے منوچی کو مغل فوج میں شرکت کی دعوت دی اور منوچی مغل فوج میں بطور ماہر بندوقدار بھرتی ہوا۔1658ء کے موسم گرماء تک مغل شہنشاہ شاہجہاں علیل ہو چکا تھا۔ مغل شہزادوں کے مابین تخت کی رسہ کشی نے جنگی کیفیت پیدا کردی تھی۔ داراشکوہ اور اورنگزیب کے درمیان ساموگڑھ کی لڑائی ہوئی اور داراشکوہ شکست کھاگیا اور زخمی حالت میں 29 مئی 1658ء کو لاہور کی جانب بھاگا مگر جلد ہی گرفتار کر لیا گیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔ اورنگزیب نے دفعتاً تمام یورپی سپاہیوں کو مغل فوج سے معطل کر دیا۔ منوچی کو شاہی دستے کے ساتھ کشمیر بھیج دیا گیا۔