وامق جونپوری

بھارت کے ترقی پسند اردو شاعر

احمد مجتبیٰ المعروف وامق جونپوری (انگریزی: Wamiq Jaunpuri)، (پیدائش: 23 اکتوبر، 1909ء - وفات: 21 نومبر، 1998ء) بھارت کے ممتاز ترقی پسند شاعر تھے۔ وامق ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے ترقی پسند فکر اور نظریے سے اپنی مضبوط وابستگی کی بنا پر اپنی ساری زندگی اور اپنی ساری صلاحیتیں اس کی تشہیر وتبلیغ کے لیے وقف کردی تھیں۔ ان کی نظم بھوکا بنگال بہت مشہور ہوئی اور ایک طرح سے ان کی شناخت کا حوالہ بن گئی۔

وامق جونپوری

معلومات شخصیت
پیدائش 23 اکتوبر 1909ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جونپور، اترپردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 نومبر 1998ء (89 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جونپور، اترپردیش ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی لکھنؤ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد فاضل القانون   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل نظم ،  غزل   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی و فن

ترمیم

وامق جونپوری 23 اکتوبر، 1909ء کوکجگاؤں، جونپور، اترپردیش،برطانوی ہندوستان کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔[1][2][3] ان کا اصل نام سید احمد مجتبیٰ زیدی تھا اور والد کا نام سید محمد مصطفی خاں تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اردو، فارسی، عربی (میزان منشعب تک) اورانگریزی مکتبی صورت میں گھرپر ہوئی۔ بعد ازاں وہ اپنے آبائی جونپور سے بارہ بنکی چلے گئے جہاں ان کے والد صوبائی سول سروس میں تھے اور یہاں اردو، فارسی اور عربی کے عالم مولوی متوسط حسین زید پوری ان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ بارہ بنکی سے ہائی اسکول کی تعلیم، فیض آباد گورنمنٹ انٹر کالج سے انٹر میڈیٹ کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی کیننگ کالج سے بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کر کے 1937ء میں تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیا۔ اس کے بعد ضروری ٹریننگ لے کر 1939ء میں فیض آباد میں وکالت شروع کردی۔[1]

انھوں نے ایک آسودہ حال زمینداراور سرکاری نوکری پیشہ خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ شعور تک پہنچتے پہنچتے انھوں نے ماحول کی قدیم روایت پسند اور انگریز پرست ذہنیت سے مزاجاًمتنفر ہو گئے۔ لیکن مزاج میں خاندانی تہذیب میں حفظِ مراتب اور بزرگوں کے احترام کا رنگ اس قدرپختہ تھا کہ انحراف یا بغاوت تو درکنار اپنے خیالات کا اظہار بھی بعد از تصور تھا۔ البتہ جب وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو وہاں آزادی اور غلامی کا براہ راست تصادم دیکھنے میں آیا۔ یونیورسٹی میں بھی اور اس کے باہر بھی آرگینک کمسٹری کے ان کے استاد ڈاکٹر حسین ظہیر آئے دن قید ہو کر جیل جایا کرتے تھے اور تحریک آزادی شباب پر تھی۔ انھیں ڈاکٹر حسین ظہیر نے انھیں پروفیسر ڈی پی مکرجی سے ملوایا۔ ان کی قربتوں اور صحبتوں نے آزادی فکر و نظر کا وہ راستہ دکھایا، ان کے سیاسی، سماجی اور جمالیاتی شعور کو نئی جلا نصیب ہوئی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سجاد ظہیر نے ادبی محاذ پر رجعت پرستی اور غلامی کے خلاف منشی پریم چند کی صدارت میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی لکھنؤ میں بنیاد رکھی تھی۔ وکالت کی ٹریننگ کے بعد جب فیض آباد میں انھوں نے پریکٹس شروع کی تو وہاں اچھا خاصہ ادبی ماحول ملا۔ یہاں شعری نستیں اورمشاعرے ہوتے تھے۔ فیض آباد سے قربت کی وجہ سے اکثر جگر مراد آبادی، مجروح سلطانپوری، خمار بارہ بنکوی اور مسعود اختر جمال و دیگر شعرا وہاں آجایا کرتے تھے۔ 1941ء میں گورکھپور کے ایک مشاعرہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا باقاعدہ ملی ممبر بن گئے۔[1]

1942ء میں وکالت ترک کرکے تلاش معاش کے سلسلے میں دہلی چلے گئے۔ دوسری عالمی جنگ اپنے پورے شباب پر تھی۔ یہاں تلا ش معاش سے کم شعر و شاعری سے زیادہ سروکار رہا۔ دہلی سے بے نیل مرام 1943ء میں جونپور واپس آگئے۔ جونپور میں ایک دن گذارنے کے بعد وہ کلکتہ چلے گئے جہاں قحط بنگال کے دل خراش مناظر دیکھے، واپسی پر نظم بھوکا بنگال لکھی جس کے بعد ان کا شمار صف اول کے ترقی پسند شعرا میں ہونے لگا۔ بیکاری سے تنگ آکر انھوں نے بنارس کے محکمہ سپلائی و راشننگ میں نوکری کر لی اور ایک سال میں ترقی کرکے راشننگ افسر بن گئے۔ مگر اپنی تخلیقات پر اس نوکری کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ بالاعلان مشاعروں اور جلسوں میں اپنی انقلابی نظمیں پڑھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ اور ہندوستان تقسیم ہو چکا تھا اور تقسیم ہند کے نتیجے میں ہجرت اور فسادات کا حشر برپا تھا، ان دنوں وامق الہ آباد میں متعین تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ چیخیں 1948ء میں وہیں سے شائع ہوا تھا جس میں تقسیم، فسادات اور \ کے قتل پر نظمیں شامل تھیں۔ 1950ء میں نوکری سے مستعفی ہو گئے اور اسی سال ان کی نظموں کا دوسرا مجموعہ جرس دانش محل سے شائع ہوا۔ 1952ء تک بے روزگاری کی وجہ سے گھر پر رہے۔ زمینداری بھی ختم ہو چکی تھی مگر جب فاقو ں کی نوبت آگئی تو میں پھر دہلی چلے گئے اور ڈھائی سو روپے ماہوار پر ماہنامہ شاہراہ کا مدیر مقرر ہوئے۔ 1943ء - 1944ء تک وہیں دہلی میں رہے، بعد ازاں ڈاکٹر ذاکر حسین انھیں اپنے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لے گئے اور انجینئری کالج کے دفتر کا سپرنٹنڈنٹ بنا دیا۔ یہاں رہائش کے لیے انھیں ایک مکان مل گیا، اہل و عیال بھی یہیں آگئے اور بچوں کی باقاعدہ تعلیم بھی شروع ہو گئی۔[1]

1961ء میں علی گڑھ سے کشمیر چلے گئے اور نو برس وہاں نوکری کرکے 1970ء میں ریٹائر ہو کر اپنے آبائی وطن واپس آگئے۔ 1979ء میں ان تیسرا شعری مجموعہ شب چراغ شائع ہوا جس پر انھیں اتر پردیش اردو اکادمی کا پہلا ایوارڈ ملا اور 1980ء میں ادبی خدمات پر سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ ان کا چوتھا شعری مجموعہ سفر نا تمام 1990ء میں شائع ہو کرمنظر عام پر آیا۔[1] انھوں نے خودنوشت سونح عمری گفتنی نا گفتنی کے نام سے قلم بند کی جو 1993ء میں خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری پٹنہ سے شائع ہو چکی ہے۔

شعری مجموعے

ترمیم

ترتیب

ترمیم
  • 1944ء ۔ مخدوم کے سو شعر (بہ اشتراک وقار خلیل، حفیظ اقبال)

خودنوشت

ترمیم

وامق جونپوری پر لکھی گئی کتب

ترمیم
  • وامق جونپوری شخص اور شاعر، ایس ایم عباس، 1991ء، ایس ایم عباس ایڈوکیٹ، تاڑ تلہ، جون پور
  • وامق جونپوری: شخصیت اور شاعری (وامق صدی تقریبات میں پیش کیے گئے مقالات)، مرتب: علی احمد فاطمی، 2010ء، (ناشر: شعبہ اردو، جامعہ الٰہ آباد)

اعزازات

ترمیم
  • اترپردیش اردو اکادمی ایوارڈ
  • سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ
  • میر اکادمی ایوارڈ

نمونۂ کلام

ترمیم

غزل

دل کے ویرانے کو یوں آباد کر لیتے ہیں ہمکر بھی کیا سکتے ہیں تجھ کو یاد کر لیتے ہیں ہم
جب بزرگوں کی دعائیں ہو گئیں بیکار سبقرض خواب آور سے دل کو شاد کر لیتے ہیں ہم
تلخی کام و دہن کی آبیاری کے لیےدعوت شیراز ابر و باد کر لیتے ہیں ہم
کون سنتا ہے بھکاری کی صدائیں اس لیےکچھ ظریفانہ لطیفے یاد کر لیتے ہیں ہم
جب پرانا لہجہ کھو دیتا ہے اپنی تازگیاک نئی طرز نوا ایجاد کر لیتے ہیں ہم
دیکھ کر اہل قلم کو کشتۂ آسودگیخود کو وامقؔ فرض اک نقاد کر لیتے ہیں ہم[4]

غزل

ابھی تو حوصلۂ کاروبار باقی ہے یہ کم کہ آمد فصل بہار باقی ہے
ابھی تو شہر کے کھنڈروں میں جھانکنا ہے مجھےیہ دیکھنا بھی تو ہے کوئی یار باقی ہے
ابھی تو کانٹوں بھرے دشت کی کرو باتیںابھی تو جیب و گریباں میں تار باقی ہے
ابھی تو کاٹنا ہے تیشوں سے چٹانوں کوابھی تو مرحلۂ کوہسار باقی ہے
ابھی تو جھیلنا ہے سنگلاخ چشموں کوابھی تو سلسلۂ آبشار باقی ہے
ابھی تو ڈھونڈنی ہیں راہ میں کمیں گاہیںابھی تو معرکۂ گیر و دار باقی ہے
ابھی نہ سایۂ دیوار کی تلاش کروابھی تو شدت نصف النہار باقی ہے
ابھی تو لینا ہے ہم کو حساب شہر قتالابھی تو خون گلو کا شمار باقی ہے
ابھی یہاں تو شفق گوں کوئی افق ہی نہیںابھی تصادم لیل و نہار باقی ہے
یہ ہم کو چھوڑ کے تنہا کہاں چلے وامقؔابھی تو منزل معراج دار باقی ہے[5]

وفات

ترمیم

وامق جونپوری 21 نومبر، 1998ء کو جونپور، بھارت میں وفات پا گئے۔[1][2][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث "وامق جونپوری، اردو یوتھ فورم ڈاٹ او آر جی، پٹنہ بھارت"۔ 19 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2018 
  2. ^ ا ب وامق جونپوری، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  3. ^ ا ب وامق جونپوری، ریختہ ڈاٹ او آر جی، بھارت
  4. دل کے ویرانے کو یوں آباد کر لیتے ہیں ہم (غزل)، وامق جونپوری، ریختہ ڈاٹ او آر جی
  5. ابھی تو حوصلۂ کاروبار باقی ہے (غزل)، وامق جونپوری، ریختہ ڈاٹ او آر جی