وحشت کلکتوی

اردو زبان کے شاعر

خان بہادر سید رضا علی المتخلص بہ وحشت کلکتوی (پیدائش: 18 نومبر 1881ء - وفات: 20 جولائی 1956ء) اردو زبان اور فارسی کے معروف شاعر تھے۔ وہ ابو القاسم محمد مظہر الحق شمس (شاگرد داغ دہلوی) کے شاگرد تھے۔ وحشت ڈاکٹر وفا راشدی اور پیرزادہ ظفر ہاشمی کے شاعری میں استاد تھے۔

وحشت کلکتوی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: سید رضا علی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 18 نومبر 1881ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولکاتا ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 جولا‎ئی 1956ء (75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈھاکہ ،  مشرقی پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ڈھاکہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص وفا راشدی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  لیکچرر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت لیڈی برے برن کالج کلکتہ ،  مولانا آزاد کالج کلکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

رضا علی وحشت 18 نومبر 1881ء کو کلکتہ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔[1][2] ان کے جدِ امجد حکیم غالب نے 1957ء کی جنگ آزادی میں اپنے آبائی وطن دہلی سے نکل کر کلکتہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ رجا کے والد کا نام مولوی شمشاد علی تھا جنھوں نے طب کی بجائے تعلیم کا میدان منتخب کیا اور انگریز سرکار سے وابستہ ہو گئے مگر زندگی نے وفا نہ کی،رضا علی اس وقت لڑکپن میں تھے۔ کم عمری میں یتیم ہو گئے مگر غریبی تو تھی نہیں لہٰذا کوئی پریشانی زیادہ حائل نہ ہوئی تعلیمی سلسلہ چلتا رہا۔مگر زیادہ عرصہ تعلیم حاصل نہ کر سکے،کیونکہ جائداد آہستہ آستہ بکتی جا رہی تھی۔1898ء میں رضا علی نے انٹرنس کا امتحان مدرسہ عالیہ کلکتہ سے پاس کیا اور پھر 1903ء میں امپریل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہو گئے۔ان کے ذمّہ ترجمہ کا کام لگایا گیا۔ وہ فارسی مکتوبات کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا کرتے تھے۔یہ وہ درخواستیں ہوا کرتی تھیں جو بر صغیر کے کونے کونے سے تاج برطانیہ کو بھیجی جاتی تھیں۔ انھیں یہ کام پسند نہیں تھا مگر مجبوری تھی۔ 1910ء میں ان کا مجموعہ کلام دیوان وحشت کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔ 1921ء میں حکومت برطانیہ نے انھیں خان بہادر کا خطاب عطا کیا۔ 1926ء میں اسلامیہ کالج کلکتہ کی بنیاد پڑی تو رضا نے نوکری سے​ استعفٰی دے دیا اور اس کالج میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے آگئے۔ یہاں انھوں نے 1936ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ پورے کلکتہ میں ان کی شاعری کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ہر مشاعرے کی وہ ضرورت سمجھے جاتے تھے۔مرشد آباد ، عظیم آباد ، ڈھاکہ، ہوگلی جیسے بڑے بڑے شہروں میں ان کے شاگردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ ان کا شمار اساتذہ میں ہونے لگا تھا۔ پانچ سال علم ادب کی خدمت کے بعد انھیں پھر نوکری کرنے کی سوجھی۔افتاوِ زمانہ نے وقت کے ساتھ چلنے کی چاہ نے سب کچھ بکوا دیا تھا۔ 1941ء میں لیڈی برے برن کالج کلکتہ میں لیکچرار شپ کی نوکری کر لی۔ ایک سال تک اردو پڑھاتے رہے، پھر انھیں فارسی کا شعبہ دے دیا گیا۔یو ں بھی وہ اردو و فارسی میں ہی شاعری کیا کرتے تھے۔ 1948ء تک وہاں تدریسی عمل انجام دیتے رہے پھر اس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد چونکہ تقسیم ہند کا عمل ہو چکا تھا اور کلکتہ و بہار و مشرقی یو پی کے مسلمان بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان منتقل ہو چکے تھے جن میں ان کے شاگردوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، ان سب کے بے حد اصرار پر بالآخر 1950ء میں وہ کلکتہ سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان کے مرکزی شہر ڈھاکہ میں منتقل ہو گئے۔ مگر زندگی نے زیادہ وفا نہ کی۔ وہ 20 جولائی 1956ء کو ڈھاکہ میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے دوسرا دیوان ترانہ وحشت شائع کرایا جو مکتبہ جدید لاہور سے شائع ہوا۔انھیں بنگال کا غالب کہا جاتا تھا۔انھیں یہ لقب الطاف حسین حالی نے دیا تھا۔وہ ڈھاکہ کے عظیم پورہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔​[3][4][1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور، 2018ء، ص 441
  2. صابر براری، تاریخ رفتگاں، ادارہ فکر نو کراچی، فروری 1986ء، ص 40
  3. وحشت کلکتوی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  4. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، اردو سائنس بورڈ لاہور، 2006ء، ص 915