صابر براری
صابر براری (پیدائش: 30 اکتوبر 1928ء - 5 مئی 2006ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر تھے۔ انھوں نے نعت، سلام، منقبت، رباعی اور غزل کی اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی۔
صابر براری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: احمد مرزا قادری) |
پیدائش | 30 اکتوبر 1928ء اچلپور ، امراوتی ضلع ، برار ، برطانوی ہند |
وفات | 5 مئی 2006ء (78 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کراچی |
تعلیمی اسناد | بی ایڈ |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمصابر براری 30 اکتوبر 1928ء میں ایلچ پور (موجودہ اچلپور)، امراوتی ضلع، برار ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام احمد مرزا قادری تھا مگر صابر براری کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ والد کا نام مولوی حمید مرزا تھا۔ جل گاؤں، کھام گاؤں اور امراؤتی کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی۔ حیدرآباد دکن سے عالم اردو کی سند حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے بی اے اور جامعہ ملیہ کالج کراچی سے بی ایڈ کیا۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ مولانا ضیاء القادری بدایونی اور عارف اکبر آبادی کے تلمیذ رہے۔انھوں نے نعت اور تاریخ گوئی میں شہرت پائی۔ صابر کی کتابوں میںہدیہ صلواة و السلام (مجموعہ نعت، 1957ء)، فردوسِ عقیدت (مجموعہ نعت، 1957ء)، آمنہ کا لال (مجموعہ نعت، 1961ء)، بہشتِ مناقب (مناقب، 1963ء)، انوارِ پنجتن (مجموعہ سلام، 1970ء)، جامِ طور (مجموعہ نعت، 1978ء) ،تاریخِ رفتگان (جلد اول 1986ء، دوم 1998ء، سوم 2000ء) اور کتابوں پر تاریخی قطعات (2004ء) شائع ہو چکی ہیں۔ نعت، مناقب، قطعات اور سلام کے علاوہ انھوں نے غزلیں بھی کہیں۔ ان کا غزلوں کا مجموعہ چشمِ شوق کے نام سے شائع ہوا۔صابر براری 5 مئی 2006ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ کورنگی نمبر 1 کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
نہ تھے ارض و سما پہلے نہ تھے شمس و قمر پہلے | خدا کے بعد تھا نورِ شہِ جن و بشر پہلے | |
نبی جتنے بھی آئے حضرت آدم سے عیسیٰ تک | سبھی نے دی شہِ بطحا کے آنے کی خبر پہلے | |
کف بوجہل میں کس نے گواہی دی رسالت کی | کبھی گویا ہوئے تھے اس طرح سے یہ حجر پہلے | |
وہ تارا بار ہا روح الامیں نے جس کو دیکھا تھا | وہ تھا روئے مبارک میں فلک پر جلوہ گر پہلے | |
خدا نے شرط یہ رکھ دی دعا مقبول ہونے کی | درودِ پاک کا تحفہ میرے محبوب پر پہلے | |
یہی اک راہِ روشن ہے خدا کو ڈھونڈنے والے | منور کر نبی کے عشق سے قلب و نظر پہلے | |
یقیناً موت کا اک دن معین ہے مگر یا رب | میسر ہو مجھے مکے مدینے کا سفر پہلے | |
مچے گا شور محشر میں، ہو رحمت کی نظر مولا | اِدھر پہلے اِدھر پہلے اِدھر پہلے اِدھر پہلے | |
ملی ہے نعت گوئی کے سبب شہرت یہ صابر کو | وگرنہ مانتے کب تھے اسے اہل ہنر پہلے |
نعت
خدا نے مغفرت کی شرط کیا راحت فزا رکھ دی | دِلائے مصطفیٰ رکھ دی رضائے مصطفیٰ رکھ دی | |
رضا پہ ان کی رب نے منحصر اپنی رضا رکھ دی | انہی کے عشق پہ موقوف ایماں کی بقا رکھ دی | |
کیا پہلے تو اپنے نور سے نور نبی پیدا | پھر اس نور مقدس سے دو عالم کی بنا رکھ دی | |
کوئی جانے تو کیا جانے کوئی سمجھے تو کیا سمجھے | حقیقت آپ کی حدِ خرد سے ماوریٰ رکھ دی | |
درودِ پاک ہو وردِ زباں جس کے اسے کیا غم | خدا نے ہر مرض کے واسطے اس میں شفا رکھ دی | |
مخدا کا شکر جتنا بھی ادا ہو کم ہے اے صابر | کہ مجھ عاصی کے لب پہ مدحتِ شاہِ ہدیٰ رکھ دی |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 580
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 65