سر تھامس آرنلڈ (Sir Thomas Arnold) انگریز ماہر تعلیم و مستشرق تھے۔ وہ ڈیون پورٹ( انگلینڈ) میں پیدا ہوئے۔ سٹی سکول آف لندن اور میکڈمین کالج ( کیمبرج) میں تعلیم پائی۔ یونانی اور لاطینی ادب عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی، ولندیزی، پرتگالی اور ہسپانوی میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ اور 1898ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اپریل 1899ء اور اگست 1902ء سے اپریل 1903ء تک یونیورسٹی اوینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل رہے۔ 1904ء میں انڈیا آفس لائبریری (لندن) کے اسسٹنٹ لائبریرین مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج میں فلسفے کی تعلیم انہی سے حاصل کی۔ یورپ کے دوران قیام 1905ء تا 1908ء میں علامہ اقبال نے شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا تو سر تھامس آرنلڈ ہی نے انھیں اس ارادے سے باز رکھا۔ کچھ عرصہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1921ء میں سر کا خطاب ملا۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ جن میں پریچنگ آف اسلام کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔

تھامس واکر آرنلڈ
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1864ء (عمر 159–160 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مگدالین   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مستشرق   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اقبال اور آرنلڈ

ترمیم

گورنمنٹ کالج‘ لاہور میں علامہ اقبال کے فلسفہ کے اُستاد تھے، آرنلڈ نے ہی علامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ انگلستان میں جب اقبال نے شاعری ترک کرنے کا ارادہ کیا تو آرنلڈ نے ہی انھیں شاعری جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی میں بی اے کی ڈگری کے لیے جو تحقیقی مقالہ لکھا اور پھر اس مقالہ میں ترمیم و اضافہ کرکے ڈاکٹریٹ کے لیے میونخ یونیورسٹی میں پیش کیا‘ اس میں آرنلڈ کا بڑا عمل دخل تھا۔ جب آرنلڈ ہندوستان چھوڑ کے انگلستان چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگ درا میں شامل ہے۔[1]

شبلی اور آرنلڈ

ترمیم

ہندوستان کے مشہور مورخ اور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی (1857ء-1914ء) نے اپنے ایک سفر نامہ میں اپنے معاصر مشہور مستشرق ، ماہر تعلیم اور شاعر مشرق علامہ اقبال (1877ء-1938ء)کے استاد پروفیسر سر تھامس واکر آرنلڈ (1864ء-1930ء) کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مئی 1892ء میں عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سفر کر رہے تھے تو اسی دوران ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ہے اور جس کو علامہ شبلی نعمانی اس طرح تحریر فرماتے ہیں - " عدن سے چونکہ دلچسپی کے نئے سامان پیدا ہو گئے تھے ، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے ، لیکن دوسرے ہی دن ایک پر خطر واقعہ پیش ، جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا ۔ 10 مئی (1892ء) کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن باکل بے کار ہو گیا تھا اور جہاز آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا میں سخت گھبرا یا نہایت نا گوار خیالات دل میں آنے لگے۔ اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا ، دوڑا ہوا مسٹر آر نلڈ کے پاس گیا ، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے ؟ بولے ہاں : انجن ٹوٹ گیا ہے میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں ؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے ؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے ، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابل قدر وقت کو رائگان کرنا بالکل بے عقلی ہے ، ان کے استقلال اور جرئت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا ، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا " ( سفر نامہ روم و مصر و شام _ص 14-15-ایڈشں1999ء) اس ایک واقعہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ اہل داش کے ہاں مطالعہ کی کتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور اس نعمت سے وہ کیسے اپنی زندگی کی آخری سانس تک حظ و لطف اٹھانے ہیں ؟

وفات

ترمیم

آرنلڈ کا انتقال 9 جون1930ء کو ہوا۔ [2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. (تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)
  2. (تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)

حوالہ جات