پشتون تحفظ تحریک (پشتو: پښتون ژغورنې غورځنګ‎) پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رہنے والے پشتونوں کی سماجی تحریک ہے جس کا آغاز مئی 2014 میں ہوا۔ اپنے آغاز میں اس تحریک کی بنیاد محسود تحفظ تحریک کے نام سے ہوئی جس کا مقصد جنگ سے متاثرہ وزیرستان اور سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں    میں  زمینی مسماریوں کا خاتمہ اور سیکورٹی چوکیوں پر پشتونوں کی ذلت کی روک تھام کرنا تھا[3]۔

پشتون تحفظ تحریک
پښتون ژغورنې غورځنګ
مخففپی ٹی ایم
قِسمانسانی حقوق کی تحریک
مقصدپشتونوں کی زندگیوں اور حقوق کا تحفظ
  • لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماروائے عدالت ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حقائق اور مفاہمتی کمیشن کا قیام[1]
  • پشتونوں کے علاقوں سے لینڈ مائنز اور چیک پوسٹوں کا خاتمہ[2]
سربراہ
منظور پشتین

جنوری 2018  ء میں نقیب اللہ محسود کی کراچی میں پولیس مقابلے کے دوران ماروائے عدالت ہلاکت کے بعد اس تحریک کو عروج ملا[4]۔ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کا نام "محسود تحفظ تحریک" سے تبدیل کر کے "پشتون تحفظ تحریک" رکھا گیا۔ اس تحریک کے سربراہ انسانی حقوق کے کارکن منظور پشتین ہیں [5] جب کہ اہم رہنماؤں میں علی وزیر اور محسن داوڑ شامل ہیں[6]۔

26 جنوری، 2018ء کو، منظور پشتین نے ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہونے والی احتجاج مارچ کی قیادت کی اور 28 جنوری کو پشاور تک پہنچنے[7] ۔ پھر 1 فروری کو اسلام آباد پہنچنے پرپشتون تحفظ تحریک نے "سب پشتون قومی رہنما" نامی ایک جرگہ منظم کیا۔ جرگہ نے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی مذمت کی جس کو کراچی میں ایک پولیس اہلکاروں اور پشتونوں کے خلاف مبینہ طور پر ریاستی مظلوم کے دوران میں پولیس فورس کی طرف سے ہلاک کیا گیا تھا[8]۔دوسرے مطالبات کے علاوہ، جرگہ نے حکومت سے بھی کہا کہ نقیب اللہ محسود کے لیے عدالتی انکوائری قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام دیگر پشتونوں کے لیے پولیس کے محاذوں میں غیر قانونی طور پر قتل کیا گیا کی تحقیقات کا آغا ز کیا جائے۔ [9]

تحریک کے مطالبات

ترمیم

پشاور میں 8 اپریل، 2018ء کو ایک بڑے اجتماع کا انعقادکیا تھا۔ 60 ہزار سے زائد افراد نے احتجاج شرکت کی تہیں۔ ان کی بنیادی مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:

وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقوں میں فرنٹیئر جرم کے قوانین کا خاتمہ۔

لاپتہ افراد کی رہائی  (اگر انھوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے، تو ان کو عدالت میں پیش کر کے سزا دینی چاہیے۔)

سیکورٹی چوکیوں پر ذلت کی روک تھام

تلاش کے آپریشنوں کی بنیاد پر پشتون خاندانوں کو ہراساں کرنا روکنا۔[1]

وفاقی انتظامیہ قبائلی علاقوں میں زمینی مسماریاں ہٹانا۔

تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جو بھی اجتماعی ذمہ داری کے مراکز اور دیگر اسی طرح کے الزامات کے تحت گرفتار کیے جاتے ہیں۔ [2]

بنوں جلسہ

ترمیم

بنوں: پشتون تحفظ موومنٹ کا کیا اب تک کا سب سے بڑا جلسہ تھا؟ جلسے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور مالاکنڈ ڈویژن سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی پشتون تحفظ موومنٹ نے اتوار کو خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر بنوں میں احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ پی ٹی ایم نے لگ بھگ اڑھائی ماہ کی خاموشی کے بعد بنوں جسے پشتون پیار سے ’بنی گل‘ پکارتے ہیں، کو احتجاجی جلسے کے لیے منتخب کیا۔

سوشل میڈیا پر اس جلسے میں شریک افراد کی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں اور دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ غالباً موومنٹ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔

بنوں جلسے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور مالاکنڈ ڈویژن سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔

’پشتون تحریک کو دشمن قوتیں استعمال کر رہی ہیں‘

وانا: امن کمیٹی کا جرگے کی بات ماننے سے انکار، حالات بدستور کشیدہ

سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے جذبے’ٹھنڈے‘ پڑ رہے ہیں؟

مقامی صحافی عمردراز وزیر جنھوں نے پی ٹی ایم کے سارے جلسے رپوٹ کیے ہیں، کہتے ہیں کہ ’بنوں کا جلسہ اگر سب سے بڑا نہیں، تو ٹاپ ٹو جلسوں میں ضرور تھا۔‘

پشتونوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاست دان اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک جنھوں نے اسکول اور کالج تک تعلیم بنوں میں حاصل کی ہیں، اس جلسے کو تاریخی جلسہ قرار دیتے ہیں۔

افراسیاب خٹک کہتے ہیں ’اگرچہ اس تحریک کے سرچشمے وزیرستان سے ہیں، لیکن انھوں نے بنوں، جنوبی اضلاع، کوئٹہ، پشاور اور ملاکنڈ ڈویژن سمیت تمام پشتون علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔‘

پشتون تحفظ موومنٹ کے منتظمین کے مطابق بنوں جلسے کے لیے انھوں نے 30 ہزار کرسیاں منگوائی تھیں، لیکن ان کرسیوں کے ساتھ ساتھ بنوں سپورٹس کمپلکس کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔

صحافی عمردراز وزیر کے مطابق کم از کم ساٹھ ہزار لوگوں نے بنوں جلسے میں شرکت کی، جس میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ، بچے، خواتین اور بوڑھے بھی شریک تھے۔

اس جلسے میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ملک مرزا عالم وزیر کی بیوہ نے بھی شرکت کی، جس کے گھر سے اُن کے شوہر اور دو بیٹوں سمیت 13 جنازے نکلے تھے۔ یہ تمام افراد ’نامعلوم مسلح افراد‘ کے ہاتھوں مختلف حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ بوڑھی خاتوں جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی والدہ ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ Twitter پی ٹی ایم کے بنوں جلسے میں صوابی سے تعلق رکھنے تنظیم کے ضعیف العمر کارکن ’فیض محمد کاکا‘ نے بھی شرکت کی۔

88 سالہ فیض محمد کاکا پر صوابی میں پی ٹی ایم جلسے کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی اور بعد میں انھیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس 88 سالہ شخص کو ہتھکڑیاں لگے ہوئے تصاویر وائرل ہوئی تھیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے بنوں جلسے کو بھی مقامی میڈیا نے کوئی کوریج نہیں دی۔ موومنٹ کے جلسوں میں اکثر فیس بک لائیو کے ذریعے شرکا مقررین کی تقاریر دیکھاتے ہیں، لیکن بنوں میں جلسے کے وقت موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل رہی۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ معطلی سکیورٹی کے پیش نظر کی گئی یا سینسرشپ کی وجہ سے۔

رواں سال فروری میں منظرعام پر آنے والی تنظیم پی ٹی ایم کے بارے اگرچہ ماضی قریب میں خیال ہوتا رہا کہ اس تنظیم کی اب وہ مقبولیت برقرار نہیں رہی ہے اور تنظیم کے دواہم اراکین کے پارلمنٹ میں جانے سے تنظیم منقسم اور کمزور ہو گئی ہیں، لیکن بنوں جلسے میں ارکان قومی اسمبلی کی شرکت اور ’ہزاروں افراد کی شرکت‘ نے یہ تاثر رد کیا ہے۔ [10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. PTM seeks formation of commission on extrajudicial killings. Dawn. April 23, 2018.
  2. "د پښتنو منظور پښتون له کومه راغی؟"۔ بی بی سی پشتو (بزبان پشتو)۔ 2018-03-11۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2018 
  3. "Young Pashtuns have shown the mirror to 'mainstream' Pakistan"۔ Daily Times (بزبان انگریزی)۔ 2018-02-11۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2018 
  4. "Manzoor Pashteen: The voice of Pashtuns for many in Pakistan"۔ www.aljazeera.com۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اکتوبر 2018 
  5. "د پښتنو د پاڅون مشر منظور پښتون څوک دی؟"۔ VOA Deewa (بزبان پشتو)۔ 2018-02-13۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2018 
  6. "Long march against Naqeeb killing reaches Peshawar"۔ Daily Times (بزبان انگریزی)۔ 2018-01-29۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 فروری 2018 
  7. "Pashtun Tribes Stage Unprecedented Protest in Pakistan"۔ The Diplomat (بزبان انگریزی)۔ 2018-02-08۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2018 
  8. "In Pakistan, Long-Suffering Pashtuns Find Their Voice"۔ نیو یارک ٹائمز (بزبان انگریزی)۔ 2018-02-06۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2018 
  9. "بنوں: پشتون تحفظ موومنٹ کا کیا اب تک کا سب سے بڑا جلسہ تھا؟"۔ BBC Urdu (بزبان انگریزی)۔ 2018-10-29۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2018