کمود بین جوشی
کمود بین منی شنکر جوشی 31 جنوری 1934ء کو گجرات میں شری منی شنکا جوشی کے ہاں پیدا ہوئیں۔ وہ 26 نومبر 1985ء سے 7 فروری 1990ء تک آندھرا پردیش کی گورنر رہیں۔ وہ شاردا مکھرجی کے بعد ریاست کی دوسری خاتون گورنر تھیں۔ [1] وہ اطلاعات و نشریات کی نائب وزیر (اکتوبر 1980ء - جنوری 1982ء) اور صحت اور خاندانی بہبود کی نائب وزیر (جنوری 1982ء - دسمبر 1984ء) بھی بنیں۔
کمود بین جوشی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
آندھرا پردیش گورنر | |||||||
برسر عہدہ 26 نومبر 1985 – 7 فروری 1990 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 31 جنوری 1934ء برطانوی ہند |
||||||
تاریخ وفات | 14 مارچ 2022ء (88 سال) | ||||||
شہریت | بھارت برطانوی ہند ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–) |
||||||
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
درستی - ترمیم |
جوشی 15 اکتوبر 1973ء سے 2 اپریل 1976ء تک، پھر 3 اپریل 1976ء سے 2 اپریل 1982ء تک اور 3 اپریل 1982ء سے 25 نومبر 1985ء تک تین بار راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔ وہ گجرات پی سی سی کی جنرل سکریٹری بھی تھیں۔
عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد، انھوں نے ریاست کے تمام 23 اضلاع اور اکثر بیرونی ریاستوں کے دورے کیے۔ جو بھارتی گرونروں میں ایک رکارڈ ہے۔ وہ حیدرآباد کے راج بھون میں اپنے 13 پیشروؤں سے زیادہ سرگرم رئیں تھی۔ 26 نومبر 1985ء اور 30 ستمبر 1987ء کے درمیان میں انھوں نے 108 مواقع پر اضلاع کا اور 22 بار ریاست سے باہر کا سفر کیا۔ راما راؤ، اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور ان کی جماعت والوں نے اسے جوشی کی طرف سے کانگریس کے لیے ایک مضبوط بنیاد بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔
تنازعات
ترمیمکمود بین منی شنکر جوشی راج بھون میں اپنے دور اقتدار کے دوران میں حکمران تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی دھمکیوں کی زد میں تھیں۔
ان کے خلاف مہم اس وقت گرم ہوئی جب ریاستی کابینہ نے ان کی یوم جمہوریہ پریڈ تقریر کے "وقت اور مواد" پر تنقید کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی جس میں "ریاست کی طرف سے کی گئی قابل ذکر پیش رفت کو کم کیا گیا"۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ این ٹی راما راؤ سے بھی کہا کہ وہ اس سلسلے میں صدر جمہوریہ آر وینکٹارمن کو خط لکھیں۔ ٹی ڈی پی کے وزرا نے ان پر کانگریس (الف) ایجنٹ جیسا برتاؤ کرنے کا الزام لگایا۔
ہندی میں اپنی 20 منٹ کی غیر معمولی تقریر میں، جوشی نے کہا تھا: "کوئی بھی ریاست ترقیاتی پروگراموں کو نافذ کرنے میں حکومت ہند کے تعاون کے بغیر ترقی نہیں کر سکے گی۔" انھوں نے نشان دہی کی کہ مرکزی حکومت وشاکھاپٹنم اسٹیل پروجیکٹ پر روزانہ 4 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے اور اناج کی تقسیم کے لیے 75 پیسے سے 1 روپے تک سبسڈی فراہم کرتی ہے۔
وزیر جنگلات جی مڈوکرشناما نائیڈو نے جلد ہی ان پر الزام لگایا کہ وہ صرف مرکزی طور پر اسپانسر شدہ اسکیموں کو پیش کرتی ہیں اور ریاستی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ فلاحی اقدامات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ تعاون کے وزیر این یتھیرا راؤ کے مطابق: "انھوں نے گورنر کے دفتر کو کانگریس (الف) کے تعلقات عامہ کے افسر کے عہدے پر محدود کر دیا ہے۔"
جوشی نے حیدرآباد کے مقامی اخبارات کو متعدد انٹرویو دے کر رد عمل ظاہر کیا۔ انھوں نے الزامات کو ردّی قرار دیتے ہوئے کہا، "اس طرح کی تنقید کا جواب دینا میرے وقار سے خلاف ہے۔"
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Former Governors of Andhra Pradesh"۔ National Informatics Centre۔ 3 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2012