کوس مینار
کوس مینار شمالی برصغیر میں جرنیلی سڑک کے ساتھ قرون وسطی کے ہندوستانی سنگ میل ہیں، جنہیں 16ویں صدی کے پشتون حکمران شیر شاہ سوری نے متعارف کرایا تھا۔ کوس مینار آگرہ سے اجمیر، آگرہ سے لاہور اور جنوب میں آگرہ سے منڈو تک شاہی راستوں کے ساتھ فاصلے کے نشانات کے طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔ زیادہ تر کوس مینار اتر پردیش، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب میں سڑکوں کے کنارے، ریلوے کی پٹریوں، دھان کے کھیتوں اور بہت سے قصبوں اور دیہاتوں میں موجود ہیں۔[1]
کوس مینار کو سر تھامس رو جیسے ابتدائی یورپی سیاحوں نے "ہندوستان کا چمتکار" قرار دیا تھا اور آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا کے ذریعہ اسے ہندوستان کے قومی مواصلاتی نظام کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔ [2]
شیر شاہ سوری نے برصغیر میں کابل سے کلکتہ کے درمیان ہر کوس پر ایک مینار تعمیر کروایا تھا، جن میں سے چند ایک کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔
پس منظر
ترمیمسنسکرت میں کوس ایک ’’یوجنا‘‘ کا چوتھا حصہ ہے، جو چوتھی صدی قبل مسیح میں فاصلے کی ایک قدیم ہندوستانی اکائی کے طور پر رائج تھا۔[3] یہ تقریباً 3.22 کلومیٹر (10,600 فٹ) کے فاصلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ مینار عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ستون نما عمارت کے ہیں۔
برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل کوس طویل فاصلوں کی پیمائش کا ایک پیمانہ تھا، جیسا کہ آج کلومیٹر یا میل ہیں۔ ایک کوس تقریباً تین کلومیٹر کے لگ بھگ (3.22 کلومیٹر) ہوا کرتا تھا۔ کوسوں دور ہونا کا محاورہ آج بھی اردو روزمرہ میں متداول ہے، جس کا مطلب کافی دوری پر واقع ہونا سمجھا جاتا ہے۔ کلومیٹر اور میل سے قبل قدیم دور میں کوس ہی طویل مسافت کو ناپنے کا پیمانہ تھا۔
ساخت
ترمیمکوس مینار ٹھوس گول ستون ہیں، جن کی اونچائی تقریباً 30 فٹ (9.1 میٹر) ہے۔ انھیں عام طور پر ایک چبوترے پر اینٹوں سے بنایا گیا ہے اور اس کے اوپر چونے سے پلستر کر دیا گیا ہے۔ سب کوس میناروں کی ساخت ایک جیسی نہیں ہیں۔ مختلف شہروں میں واقع کوس میناروں کی تصاویر ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
مقصد
ترمیمان میناروں کا مقصد شاہراہ پر سفر کرنے والوں کی حفاظت کے پیشِ نظر عارضی قیام اور سرکاری اہلکاروں کا برق رفتاری کے ساتھ پیغامات ایک سے دوسری جگہ پہنچانا تھا۔ ان میناروں کے ساتھ موجود سرائے نما جگہوں پر تازہ دم گھوڑے ان سرکاری اہلکاروں کے لیے ہر دم تیار ہوتے تھے۔[4][5]
تاریخ
ترمیمشیر شاہ سوری اور مغل بادشاہوں نے ہر کوس پر چھوٹے چھوٹے مینار تعمیر کروائے تھے، تاکہ لوگ ان میناروں کی گنتی کے تناسب سے فاصلے اور جگہوں کا تعین کر سکیں۔ ان میناروں کی اونچائی 30 فٹ تک ہوتی تھی، جو خاص طور پر ان راستوں پر تعمیر کیے گئے تھے جن پر خود بادشاہ سفر کرتے تھے۔[6]
ابوالفضل نامی مورخ نے اپنی کتاب ’اکبرنامہ‘ میں لکھا ہے کہ ”1557ء میں مغل شہنشاہ اکبر نے ایک فرمان جاری کیا تھا کہ مسافروں کی سہولت کے لیے آگرہ سے اجمیر تک ہر کوس پر ایک مینار تعمیر کیا جائے۔“ ایسے ہی کوس مینار اس سے قبل شیر شاہ سوری نے بھی تعمیر کرائے تھے، جن کی اس دور کے یورپی سیاحوں نے اپنی تصانیف میں تعریف کر رکھی ہے اور انھیں ہندوستان کے ’قومی مواصلاتی نظام‘ کا لازمی حصہ قرار دے رکھا ہے۔[6]
سب سے پہلے شیر شاہ سوری نے کابل سے کلکتہ تک تقریباً 2500 کلومیٹر طویل جرنیلی سڑک کے ساتھ ساتھ کوس مینار بنوائے۔ یہ کوئی خاص تعمیراتی شاہکار عمارت نہیں ہوتی تھی، بلکہ آج کل اینٹوں کی تیاری کے لیے بنائے جانے والے بھٹے جیسی ساخت کے مینار ہوتے تھے، جو نسبتاً پستہ قد تھے۔ جرنیلی سڑک کے ساتھ تقریباً ہر تین کلومیٹر (جو ایک کوس کہلاتا تھا) کے فاصلے پر ایک مینار بنایا گیا تھا۔ ان کا مقصد شاہراہ، مسافروں، نقل و حرکت کے سامان کی حفاظت بھی تھا۔ یہاں سرکاری اہلکاروں کی تعیناتی ہوتی تھی۔ سرکاری احکامات اور ڈاک کی ترسیل کو بروقت پہنچانے کے لیے سرکاری اہلکار گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ اگلی منزل یا مقررہ کوس مینار پر ان کے لیے نئے تازہ دم گھوڑے تیار ہوتے۔ پچھلے گھوڑے وہیں روک دیے جاتے، اس طرح متواتر انتظامات کے تحت یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ مسافروں کے لیے سرائے بھی تعمیر کی گئی تھیں۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ مسافروں اور جانوروں کی سہولت کے لیے پانی پینے کے لیے باؤلیاں بھی بنوائی گئی تھیں۔ بعد میں مغلیہ سلطنت کے عہد میں بھی اس تسلسل کو برقرار رکھا گیا اور ان میں مزید بہتری اور سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔ خصوصاً شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں کافی بہتری آئی۔[7]
موجودہ حالت
ترمیمحوادثِ زمانہ کے سبب 800 سے زائد کوس میناروں میں سے چند ایک ہی باقی بچے ہیں، جبکہ دیگر زمانے کی دست برد کی نظر ہو کر منہدم ہو گئے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
بھارت اور پاکستان میں درجن بھر مینار دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارت میں جے پور، دہلی، جالندھر، اترپردیش، کرنال، ہریانہ اور انبالہ میں یہ مینار موجود ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے شہر لاہور کی حدود میں تین کوس مینار کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک مغلپورہ میں واقع ہے، دوسرا جی ٹی روڈ پر واقع مناواں پولیس اسٹیشن کے سامنے کھیتوں میں موجود ہے، جبکہ تیسرا لاہور کے سرحدی گاؤں منہالہ کے قریب کھلے کھیتوں میں کھڑا ہے۔ مغلپورہ والے مینار کو باقاعدہ طور پر جنگلہ لگا کر ایک چھوٹے سے پارک میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ منہالہ والا کوس مینار آبادی سے دور کھیتوں میں کھڑا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی، تاہم حال ہی میں محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی عمارت کو کسی حد تک مرمت کر دیا ہے۔ جبکہ مناواں والا کوس مینار بہت خستہ حالت میں ہے۔
مغلپورہ میں ایستادہ کوس مینار کے حوالے سے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ رقم طراز ہیں:
” | کوس مینار کے بارشوں سے سیاہ ہو چکے پلستر پر ایک ایسی آہنی تختی کیلوں سے ٹھونکی گئی ہے جو مکمل طور پر زنگ آلود ہو چکی ہے۔اس پر درج شدہ عبارت کے حروف بھی زنگار شدہ حالت میں پڑھے نہیں جاتے۔ یہ عمارت قانون تحفظ آثار قدیمہ مجریہ 1975ء کے تحت محفوظ کی گئی ہے۔ جو شخص اس عمارت کو نقصان پہنچائے گا یا اس پر نام کنندہ کرے گا یا اس پر ناجائز قبضہ کرے گا اس کو موجب ایکٹ مذکورہ بالا سیکشن تین سال قید بامشقت جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ اس عمارت کی حدود میں بلا اجازت کسی قسم کی تعمیر کرنا خلاف قانون ہے بموجب ایکٹ بالا سیکشن[8] | “ |
تصاویر
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ P. Krishna Gopinath۔ "Kos minars: Pillars of the past"۔ thehindubusinessline (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2021
- ↑ "Sher Shah Suri's kos minars once meant to show way to travellers stand lost today - Times of India"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2018
- ↑ Arthashastra, Chanakya، چوتھی صدی قبل مسیح میں
- ↑ عبد المنان، لَہور لَہور ہے، صفحہ نمبر 101
- ↑ "لفظونہ"۔ lafzuna.com۔ 26 ستمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2022
- ^ ا ب "روزنامہ پاکستان 3 مارچ 2019"۔ dailypakistan۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2022
- ↑ "پنجند کام"۔ punjnud۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2022
- ↑ "ہم سب"۔ humsub۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2022