کیف بارہ بنکوی
کیف بارہ بنکوی (پیدائش: 28 فروری 1912ء– وفات: 6 اگست 1976ء) اردو زبان کے نامور شاعر تھے۔
کیف بارہ بنکوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 فروری 1912ء گورکھپور |
وفات | 6 اگست 1976ء (64 سال) گورکھپور |
شہریت | برطانوی ہند (28 فروری 1912–15 اگست 1947) بھارت (15 اگست 1947–6 اگست 1976) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش و ابتدائی حالات
ترمیمکیف کا پیدائشی نام حیدر حسین تھا۔ کیف کی پیدائش 28 فروری 1912ء کو گورکھپور میں ہوئی[1]۔کیف کے والد محمد رضا محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔خاندان کا وطن نورپور، ضلع اعظم گڑھ تھا۔ کیف کی ایک بہن کی شاد ی بارہ بنکی میں ہوئی تھی۔ جب کیف سات برس کے ہوئے تو اُن کے بہن اور بہنوئی اپنے ہمراہ بارہ بنکی لے گئے۔
تعلیم و ملازمت
ترمیمکیف کی تعلیم بارہ بنکی میں اقامت کے دوران ہوئی۔ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی تحصیل بارہ بنکی میں ہی ہوئی۔ میٹریکولیشن (میٹرک) کی سند لے کر انھوں نے فیض آباد (لکھنؤ) میں نارمل ٹریننگ حاصل کی اور اُس ے بعد ایک پرائمری اسکول میں مُدَّرس کی اسامی پر تعینات ہو گئے۔ اِسی ملازمت کے دوران میں ہی کیف نے انٹرمیڈیٹ کا اِمتحان پاس کر لیا اور اِس کے بعد نبلٹ اسلامیہ انٹر کالج میں ڈرائنگ ماسٹر مقرر ہو گئے۔ اِسی اثناء میں انھوں نے خط کتابت کے ذریعہ سے بمبئی آرٹ ڈپلوما بھی حاصل کر لیا۔ ملازمت کا پورا زمانہ نبلٹ کالج میں گذرا، جہاں سے وہ 32 سال کی طویل خدمت کے بعد 1973ء میں سبکدوش ہوئے۔[2]
وفات
ترمیمتقریباً چھ مہینے کی علالت کے بعد کیف کی وفات 6 اگست 1976ء کو گورکھپور میں ہوئی۔[3]
شاعری
ترمیمکیف کا شاعری کی جانب میلان طالبِ علمی کے زمانہ سے ہی ہو گیا تھا۔ بارہ بنکی میں قرار بارہ بنکوی صاحبِ فن اُستاد موجود تھے، اِس لیے کیف نے اُن سے سخن گوئی کے لیے اصلاح لینا شروع کردی۔ قرار بارہ بنکوی مشہور شاعر خمار بارہ بنکوی کے حقیقی چچا تھے۔ کیف نے قرار بارہ بنکوی سے اُن کی وفات تک مشورۂ سخن کیا۔ اُن کی وفات کے بعد خود اُستادی کے درجے پر فائز ہو گئے۔ شاید ہی شہر میں کوئی ادبی اور شعری نشست ہوتی ہو جس میں کیف شریک نہ ہوئے ہوں۔ خود بھی مشاعرے اور مجالس برپا کرتے رہتے تھے بلکہ ایک بزم ’’بزمِ افقر‘‘ کے نام سے قائم کی تھی جس کے زیرِ اہتمام انھوں نے بعض معرکے کے مشاعرے بھی منعقد کیے۔ کیف کا اصل میدان سخن غزل تھا مگر وہ دوسری اصناف میں بھی خود کو بند نہیں رکھتے تھے۔ شعرگوئی کی تمام اصناف میں درجۂ کمال حاصل کیا جیسے کہ نعت و منقبت، مرثیہ و نوحہ اور نظمیں، اِن سب میں بہت کچھ لکھا۔ مشکل سے مشکل زمینوں میں بھی غزلیں کہیں اور ہم چشموں سے اپنی قادرالکلامی کی داد لی۔ افسوس یہ کہ اُن کا مجموعۂ کلام اُن کی زِندگی میں شائع نہ ہو سکا۔مالک رام نے اپنی حینِ حیات یہ خبر دی تھی کہ ’’بزمِ افقر‘‘ نے کیف بارہ بنکوی کا مجموعۂ کلام شائع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔[4]