کرنل شیر خان
کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970–1999) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی ایک گاؤں کرنل شیر کلی پرانا نام نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔
کرنل شیر خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 1979ء ضلع صوابی |
وفات | 5 جولائی 1999ء (20 سال) وادی مشکوہ ، ٹائیگر ہل، کارگل ، دراس ، جموں و کشمیر |
وجہ وفات | لڑائی میں مارا گیا |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | پاکستان ملٹری اکیڈمی |
پیشہ | فوجی افسر |
عسکری خدمات | |
شاخ | سندھ رجمنٹ ، ناردرن لائٹ انفنٹری ، پاک فوج |
عہدہ | کپتان کرنل |
لڑائیاں اور جنگیں | کارگل جنگ |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمکیپٹن شیر خان یوسفزئی پشتون خاندان میں پیدا ہوئے چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُنکی والدہ کا انتقال 1978 میں ہوا جب شیر خان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اُنکی پرورش پھوپھیوں اور چچیوں نے کی۔ اُنکا خاندان مکمل طور پر مذہبی ہے۔ جس کی وجہ سے شیر خان مکمل طور پر اسلامی تعلیمات اور افکار پر عمل کرتے تھے
تعلیمی سفر اور کیرئیر
ترمیمگورنمنٹ کالج صوابی سے اپنا انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ائیر مین کے طور پر پاکستان ائیر فورس میں شمولیت اختیار کر لی اور اپنی ٹریننگ مکمل کی اور رسالپور کے بنیادی فلائنگ ونگ میں الیکٹریکل فٹر(اییروناٹیکل) کے طور پر تعینات ہوئے۔ اس دوران انھوں نے دو بار پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں دوسری دفعہ کامیابی حاصل کی۔ اور1992ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں شمولیت اختیار کی اور 1994 میں 90لانگ کورس سے گریجویشن مکمل کی۔ ان کی پہلی تعیناتی ستائیسویں سندھ رجمنٹ کے ساتھ اوکاڑہ میں ہوئی۔ ان کے چہرے پہ ہمیشہ ایک فوجی کی مسکراہٹ رہتی تھی جس کی وجہ سے شیراکے لقب سے مشہور تھے۔ کیپٹن شیر خان اپنے آفیسرز اور ساتھیوں کے درمیان بھی بہت مشہور تھے۔۔ جنوری 1998 میں انھوں نے خود کولائن آف کنٹرول پر تعیناتی کے لیے پیش کیا جہاں وہ ستائیسویں سندھ رجمنٹ کے طرف سے ناردرن لائن انفنٹری میں تعینات ہوئے
شہادت
ترمیمکارگل کی جنگ شروع ہونے کے دوران 15 جون کو امریکی صدر بل کلنٹن کا وزیر اعظم نواز شریف کو فون آیا اور کہا گیا کہ فوراً کارگل سے فوجیں واپس بلوا لو، اس کے بعد جنرل پرویز مشرف اور نوازشریف کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہا 29 جون بھارتی فوج نے پوائنٹ 5060 پوائنٹ 5100 پر دو اہم چوکیاں دوبارہ حاصل کر لیں، 2 جولائی بھارتی فوج نے کارگل پر تین حملے کیے، 4 جولائی بھارتی فوج نے گیارہ گھنٹوں کی لڑائی کے بعد علاقہ میں ٹائیگر ہلز کا علاقہ واپس لے لیا، 5 جولائی کو بھارت نے دارس کا علاقہ واپس لے لیا۔ وزیر اعظم نواز شریف ہنگامی بنیادوں پر ایک مختصر ملاقات کے لیے واشنگٹن میں صدر بل کلنٹن سے ملے نواز شریف نے اس ملاقات کے بعد کارگل سے فوجوں کو واپس بلوانے کا اعلان کر دیا۔ 29 جون کو پاکستان کے وزیر اعظم نے پاک فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم جاری کیا پاک فوج نے 6 میں سے چار جگہوں کو خالی کیا باقی point 5353 اور tiger hill رہ گئے، point 5353 آج بھی پاک فوج کے قبضے میں ہے ۔ جنگ بندی کے آرڈر کے باوجود ٹائگر ہل کی کمانڈ کیپٹن شیر خان کر رہے تھے جس کے پاس کل 30 جوان تھے جنھوں نے ٹائگر ہل پر 5 پوسٹ بنائے تھے، بھارت نے ٹائگر ہل کو واپس لینے کے لیے برگیڈئیر M.P.S Bajwa کو ٹاسک دیا جس نے ٹائگر ہل پر 8 ناکام حملے کیے باجوہ کے مطابق ان 8 حملوں میں اس کے 60 جوان ہلاک ہوئے تھے، برگیڈیئر باجوہ نے ٹائگر ہل پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھیں ۔ آخری حملے کے طور پر برگیڈیئر باجوہ نے دو برگیڈز کو بھیجا ۔ اس حملے میں شیرخان زخمی ہوئے لیکن بھارت کے بقول وہ پھر بھی لڑ رہے تھے اور آخر کار شہید ہوگیے__ اس حملے میں پاک فوج کے باقی 27 جوان بھی شہید ہوئے_ بھارت نے پاکستان کے 30 جوانوں کو وہیں دفنا دیا جبکہ برگیڈیئر باجوہ نے کیپٹن شیر خان شہید کی باڈی کو ٹائگر ہل سے نیچے اتارتے ہوئے دہلی بھیج دیا__ باڈی کو دہلی بھیجتے ہوئے برگیڈیئر باجوہ نے اپنے جنرل آفیسر کو شیرخان شہید کی بہادری سے آگاہ کیا اور اپنے ہاتھوں سے لکھا گیا خط ساتھ بھیج دیا کہ شیر کی باڈی کے ساتھ یہ خط بھی بھیج دیا جائے جس میں ان کی بہادری کے اعتراف کے ساتھ شیرخان کے لیے حکومت پاکستان سے اعلیٰ اعزاز کی فرمائش کی تھی، بھارت نے 16 جولائی کو پاکستانی پرچم لپیٹ کرنل شیرخان شہید کی باڈی عزت کے ساتھ پاکستان کے حوالے کیا پاکستان نے شیرخان شہید کی بہادری پر اس کو نشان حیدر سے نوازا
کیپٹن شیر خان کا کورٹ مارشل ہونے کی اطلاعات تھیں جس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ بندی کے آرڈر کے باوجود کیپٹن شیر خان جنگ کے جاری رکھے ہوئے تھے ۔
نشان حیدر
ترمیمنشان حیدر (NH) |
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمدبیز متن