کارگل جنگ

پاک بھارت جنگ 1999

کارگل جنگ کنٹرول لائن پر ہونے والی ایک محدود جنگ تھی جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میں 1999ء میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں واضح کامیابی کسی ملک کو نہ مل سکی۔ لیکن پاکستانی فوج نے بھارت کے تین لڑاکا جہاز مار گرے اس کے علاوہ بھارتی فوج کارگل سیکٹر میں توازن کھو بیٹھی اور 700 سے زائد فوجی ہلاک کر دیے اس جنگ میں بھارت کو برا جٹکا لگا لیکن بعد میں دونوں فریقین جنگ بندی کا علان کیا۔ پاکستانی فوج اور کشمیری باغیوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان میں لائن کنٹرول کو پار کر بھارت کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔  پاکستان نے دعوی کیا کہ تمام کشمیری عسکریت پسند لڑ رہے ہیں، لیکن جنگ میں برآمد کردہ دستاویزات اور پاکستانی رہنماؤں کے بیانات ثابت ہوئے کہ پاکستان کی فوج اس جنگ میں براہ راست اس جنگ میں ملوث تھی۔  اس جنگ میں تقریباً 30،000 بھارتی سپاہی اور 5،000 پاکستانی سپاہی شامل تھے۔  بھارتی فوج اور فضائیہ نے پاکستانی قبضہ شدہ علاقوں پر حملہ کیا اور آہستہ آہستہ پاکستان کو بین الاقوامی تعاون کے ساتھ سرحد پر واپس جانے پر مجبور کیا۔  یہ جنگ ہائی لینڈ پر واقع ہوئی اور دو ممالک کی فوجوں کو لڑنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔جوہری بم بنانے کے بعد یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان میں پہلی مسلح جدوجہد تھی۔[6]

کارگل جنگ
سلسلہ مسئلہ کشمیر   ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 3 مئی 1999  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 26 جولا‎ئی 1999  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک بھارت
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام ضلع کارگل   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
پاکستان کا پرچم پاکستان بھارت کا پرچم بھارت
قائد
پرویز مشرف وید پرکاش ملک
قوت
5000- 30000+
نقصانات
700+ جاں بحق[1][2]، 1000+ زخمی[3] 527 جاں بحق[4]، 1363+ زخمی[5]

پس منظر

دونوں ممالک نے سیاچن گلیشیئر سے ملحقہ پہاڑیوں پر فوجی چوکیاں قائم کیں جس کے نتیجے میں 1980 کی دہائی میں دونوں کے درمیان فوجی جھڑپیں ہوئیں۔ 1990 کی دہائی کے دوران، علیحدگی پسند سرگرمیوں کی وجہ سے کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تنازعات، جن میں سے کچھ کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔[7][8][9] نیز 1998 میں دونوں ممالک کی جانب سے جوہری تجربات کے انعقاد نے ایک بڑھتی ہوئی دشمنی کا ماحول پیدا کیا۔ حالات کو خراب کرنے کی کوشش میں، دونوں ممالک نے فروری 1999 میں لاہور اعلامیہ پر دستخط کیے، جس میں کشمیر کے تنازع کا پرامن اور دو طرفہ حل فراہم کرنے کا عہد کیا گیا۔ -1999 کے موسم سرما کے دوران، آپریشن بدر کے تحت ، پاکستانی مسلح افواج کے کچھ عناصر خفیہ طور پر پاکستانی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کو تربیت دے رہے تھے اور انھیں مجاہدین کے طور پر ایل او سی کے ہندوستانی حصے میں بھیج رہے تھے۔ اس کا مقصد کشمیر اور لداخ کے درمیان رابطہ منقطع کرنا اور بھارتی افواج کو سیاچن گلیشیئر سے پیچھے دھکیلنا تھا۔ تاہم، پاکستانی لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ نے مجاہدین کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ وہ محض پاک فوج کے سپاہی تھے جنھوں نے کارگل جنگ میں حصہ لیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عزیز نے جنوری 2013 میں دی نیشن ڈیلی میں اپنے مضمون میں لکھا تھا، "صرف وائرلیس پیغامات کو ٹیپ کیا گیا تھا کہ ہمارے فوجیوں کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ساتھ بنجر پہاڑوں پر قبضہ کرنے کے لیے بھیج دیا جائے۔"۔[10] کچھ ادیبوں اور دانشوروں کے مطابق اس پاکستانی آپریشن کا مقصد 1984 میں بھارت کے آپریشن میگھدوت کا بدلہ بھی ہو سکتا ہے، جس میں بھارت نے سیاچن گلیشیئر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ [11]

حقائق

واجپائی کا بیان

ایک بار اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی پاکستانی دورے پر آئے اور لاہور میں انھوں نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے گلہ کیا کہ ہم آپ کی میزبانی سے مستفید ہو رہے ہیں مگر آپ کی فوج نے کارگل پر قبضہ کرلیاہے۔ وزیر اعظم کی صدارت میں27 مئی 1998 کو پاکستان میں ہنگامی دفاعی اجلاس منعقد ہوا جس میں بحری، بری اور فضائی افواج کے سربراہان شامل تھے۔ بری اور فضائی سربراہان نے نواز شریف کو بتایا کہ ہمیں اس مہم جوئی کی بھنک تک معلوم ہے۔[12]

نواز شریف کا بیان

اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ کارگل جنگ کے ذمہ دار پرویز مشرف تھے، سیاسی خلاء ہمیشہ آمریت کے دور میں پیدا ہوتا ہے۔ بھارتی میگزین تہلکہ کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف کارگل جنگ کے ذمہ دار تھے۔ جب ان سے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائن کے اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کے استعفی کے بعد پاکستان میں سیاسی خلاء پیدا ہو جائے گا تو اس کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ سیاسی خلاء ہمیشہ آمریت کے دور میں پیدا ہوتا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان میں امن عمل جاری رہنا چائیے، انھوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرے اور حل ایسا ہونا چائیے جسے خطے کے عوام قبول کریں۔ [6]

بھارتی جنرل کش پال کا اعتراف

بھارتی فوج کے سابق جنرل کشن پال نے اعتراف کیا ہے کہ کارگل جنگ حقیقت میں بھارت نے نہیں جیتی۔ نئی دہلی میں بھارتی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کارگل جنگ میں فارمیشن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ کشن پال کا کہنا تھا کہ 1999 میں کارگل جنگ میں527 فوجیوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور بھارت نے علاقہ واپس حاصل کر لیا تھا۔ انھوں نے کہا ”میرے خیال میں جنگ میں اتنی جانیں ضائع ہونے کو کامیابی نہیں کہا جا سکتا“۔ کشن پال نے کہاکہ جنگ میں بھارت نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی ناکام رہا۔[13]

بھارتی فوجی ٹریبونل کا کارگل جنگ کی تاریخ دوبارہ لکھنے کا حکم

بھارت میں ایک فوجی ٹریبونل نے حکم دیا ہے کہ 1999 میں وقوع پزیر ہونے والی کارگل جنگ کی تاریخ دوبارہ لکھی جائے۔ فوجی ٹریبونل نے یہ حکم اس انکشاف کے بعد دیا کہ کارگل جنگ میں باٹالیک سیکٹرمیں تعینات بریگیڈیر دیوندر سنگھ کی جنگ کی رپورٹس کو لیفٹیننٹ جنرل کشن پال نے تبدیل کر دیا تھا جس کے یہ رپورٹ فوجی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ بھارتی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیر دیوندر سنگھ نے کہا کہ کارگل پر ان کی رپورٹ کو ان کے سینئر افسران نے غیر حقیقی قرار دے کر اس میں تبدیلیاں کی تھیں۔ تاہم گیارہ سال بعد فوجی ٹریبونل نے ان کی اصل رپورٹ کی حمایت کی۔[14]

پرویز مشرف کا متنازع کردار

سابق پاکستانی جنرل و صدر پرویز مشرف کا کردار کارگل جنگ کے حوالے سے منتازعہ رہا ہے۔ پرویز مشرف نے بھارت کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ کارگل کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جنگ کے سبب ہی کشمیر کے مسئلے پر بھارت پاکستان سے مذاکرات کے لیے رضامند ہوا تھا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کی وجہ سے نئی دہلی کے روئیے میں تبدیلی آئی تھی اور وہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے تیار ہوا تھا۔[15]

بھارتی فوج کے سابق سربراہ وی پی ملک نے کہا کہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے کارگل جنگ کے بارے میں جھوٹ بولا۔ انھوں نے کہا کہ کارگل جنگ کے بارے میں پرویز مشرف نے مسلسل اپنے بیانات تبدیل کیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے مشرف نے کہا تھا کہ کارگل میں فوج کی بجائے مجاہدین لڑ رہے ہیں، اس کے بعد مشرف نے تسلیم کیا کہ کارگل جنگ فوج نے لڑی۔ کارگل کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر دوبارہ اجاگر کرنے کے پرویز مشرف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کارگل میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکتوں کو پاکستان نے تسلیم نہیں کیا اور ان کی لاشیں وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ اردو پوائنٹ[مردہ ربط]


کارگل جنگ میں اسرائیل کا کردار

10فروری 2008 کو نئی دہلی میں اسرائیل کے سفیر مارک سوفر نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ملک نے 1999ء میں پاکستان کے ساتھ کارگل کی جنگ کا رخ بدلنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ایک ہفت روزہ "آﺅٹ لک" کو انٹرویو میں اسرائیلی سفیر نے بتایا کہ کس طرح کارگل کے بعد دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات کو فروغ حاصل ہوا جب اسرائیل نے ایک نازک مرحلے پر زمینی صورت حال بدلنے میں بھارت کو بچایا۔ سفیر نے کہا:

میرا خیال ہے ہم نے بھارت کو ثابت کیا کہ وہ ہم پر بھروسہ کر سکتا ہے اور ہمارے پاس اسکے لیے وسائل موجود ہیں۔ ضرورت کے وقت ایک دوست ہی حقیقی دوست ہوتا ہے۔

اسرائیلی سفیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بھارت اسرائیلی تعلقات اسلحے کی خرید و فروخت سے آگے بڑھیں گے۔ اس نے مزید کہا:

ہمارے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات خفیہ نہیں، تاہم جو بات خفیہ ہے وہ یہ ہے کہ دفاعی تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور تمام احترام کے ساتھ خفیہ حصہ ایک راز رہے گا۔"[16]

جنگ کے اہم واقعات

تاریخ (1999) واقعات [17][18][19][20]
3 مئی بھارتی چرواہوں نے کارگل میں پاکستانی دراندازی کی اطلاع دی۔
5 مئی اطلاعات کے جواب میں بھارتی فوج کے جوان بھیجے گئے، جنھیں پکڑنے کے بعد مار دیا گیا۔
9 مئی کارگل میں بھارتی گولہ بارود کے ڈمپ کو پاکستانی فوج کی شدید گولہ باری سے نقصان پہنچا۔
10 مئی دراس، قصر اور مشکوہ سیکٹرز میں دراندازی کی تصدیق۔
بھارتی فوج نے کشمیر سے فوجی کارگل بھیجے۔
26 مئی بھارتی فضائیہ کی طرف سے دراندازی والے علاقوں پر بمباری۔
27 مئی ایک مگ-21 اور ایک مگ-27 طیاروں کو پاک فوج کے ایئر ڈیفنس کور کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے مار گرایا گیا ۔ لیفٹیننٹ کمبمپتی ناچیکیتا (مگ 27 کا پائلٹ) پاکستانی ٹیم نے پکڑ لیا اور اسے جنگی قیدی کا درجہ دیا گیا۔ (3 جون 1999 کو رہا ہوا۔)
28 مئی پاکستانی فوج نے ایک مگ 17 طیارہ مار گرایا جس میں چار فوجی ہلاک ہو گئے۔
یکم جون NH 1 اور لداخ میں پاکستانی فوج کی طرف سے شیلنگ آپریشن شروع کیا گیا۔
5 جون بھارت نے تین پاکستانی فوجیوں سے برآمد ہونے والی دستاویزات جاری کیں جن میں باضابطہ طور پر اس تنازع میں پاکستان کے ملوث ہونے کی نشان دہی کی گئی تھی۔
6 جون بھارتی فوج نے کارگل میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا۔
9 جون بھارتی فورسز نے بٹالک سیکٹر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔
11 جون ہندوستان نے دراندازی میں پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کے ثبوت کے طور پر پاکستانی جنرل پرویز مشرف (چین کے دورے پر) اور لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان (راولپنڈی میں) کے درمیان ہونے والی بات چیت کے انٹرسیپٹس جاری کیے۔
13 جون بھارتی فورسز نے پاکستانی فورسز کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد دراس میں تولولنگ کو محفوظ کر لیا۔
15 جون امریکی صدر بل کلنٹن نے اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو مجبور کیا کہ وہ فوری طور پر کارگل سے تمام پاکستانی فوجیوں کو واپس بلا لیں۔
29 جون وفاقی حکومت کے دباؤ پر پاکستانی افواج نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر سے انخلاء شروع کر دیا اور ہندوستانی فوج نے ٹائیگر ہِل کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔
4 جولائی ٹائیگر ہل کی لڑائی میں تین ہندوستانی رجمنٹ (سکھ، گرینیڈیئرز اور ناگا) باقی ماندہ پاکستانی ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ سے لڑتے ہیں۔ بھارتی فورسز نے 12 گھنٹے سے زائد کی لڑائی کے بعد علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
5 جولائی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بل کلنٹن سے ملاقات کے بعد کارگل سے پاکستانی فوجیوں کے انخلاء کا باضابطہ اعلان کیا۔ بعد میں بھارتی افواج نے دراس پر قبضہ کر لیا۔
کیپٹن کرنل شیر خان نے جامِ شہادت نوش کیا۔
7 جولائی بھارتی فوجیوں نے بٹالک میں جوبر ہائٹس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
11 جولائی پاکستانی فوجوں کا انخلاء، بھارت نے بٹالک میں اہم پوزیشنیں دوبارہ حاصل کر لیں۔
14 جولائی بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے آپریشن وجے کو کامیاب قرار دیا۔ بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی شرائط رکھ دیں۔
26 جولائی کارگل جنگ کا باضابطہ اختتام۔



بیرونی روابط

دی نیوز

حوالہ جات

  1. Malik 2006، صفحہ 342
  2. Manu Pubby (19 نومبر 2010)۔ "Kargil: Pak suffered most casualties at Batalik"۔ The Indian Express۔ 2018-06-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-06-27۔ Indian records say a total of 249 bodies of Pakistani soldiers were recovered during the battle but estimates of total enemy casualties is put around 1000–1200.
  3. "How artillery changed the tide of the Kargil war"۔ The Economic Times۔ 25 جولائی 2017۔ 2018-06-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-06-27
  4. "Complete Roll of Honour of Indian Army's Killed in Action during Op Vijay"۔ Indian Army۔ 2007-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-05-20
  5. George Fernandes (8 دسمبر 1999)۔ "Soldiers Killed During Indo Pak Wars"۔ Parliamentary Questions, Lok Sabha۔ بھارتی پارلیمان۔ Unstarred Question No 793۔ 2008-02-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-05-20
  6. ^ ا ب "اردو نیوز"۔ 2012-01-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-03
  7. "Pervez Musharraf admits Pakistan nurtured terrorism | Free Press Journal"۔ web.archive.org۔ 29 اکتوبر 2015۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2015-10-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-05-23{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link)
  8. "Pak backed terror groups like LeT to fan militancy: Musharraf | Business Standard News"۔ web.archive.org۔ 29 اگست 2019۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2019-08-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-05-23{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link)
  9. "Pervez Musharraf's confession on Pakistan terror groups: Truth finally out, say Indian political parties"۔ web.archive.org۔ 30 اپریل 2020۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2020-04-30۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-05-23{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link)
  10. "Putting our children in line of fire"۔ web.archive.org۔ 13 نومبر 2013۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2013-11-13۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-05-23{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link)
  11. Robert G. Wirsing (2003)۔ Kashmir in the shadow of war: regional rivalries in a nuclear age۔ Armonk (N.Y.): M.E. Sharpe۔ ISBN:978-0-7656-1090-4
  12. "روزنامہ خبریں"۔ 2010-12-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-03
  13. "نیوز اردو کا موقع"۔ 2010-06-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-03
  14. روزنامہ جنگ[مردہ ربط]
  15. "وائس آف امریکا"۔ 2012-02-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-02-06
  16. "ایسوسی ایٹ پریس آف پاکستان"۔ 2016-03-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-03
  17. "The Tribune, Chandigarh, India – Opinions"۔ Tribuneindia.com۔ 2012-03-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-15
  18. V. P. Malik, "Kargil War: Need to learn strategic lessons", India Tribune, 26 July 2011.
  19. "Kargil conflict timeline"۔ BBC News۔ 13 جولائی 1999۔ 2012-01-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-15
  20. "Factfile"۔ The Tribune (Chandigarh)۔ 26 جولائی 2011۔ 2011-12-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-07-26