کیہر شوکت
کیہر شوکت (پیدائش: 2 فروری، 1952ء - وفات: 23 اپریل، 1999ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے سندھی اور اردو زبان کے افسانہ نگار، ڈراما نویس اور شاعر تھے۔
کیہر شوکت | |
---|---|
پیدائش | 2 فروری 1952 ء ضلع دادو، صوبہ سندھ، پاکستان |
وفات | 23 اپریل 1999 کراچی، پاکستان | (عمر 47 سال)
آخری آرام گاہ | لاڑکانہ، پاکستان |
قلمی نام | کیہر شوکت |
پیشہ | افسانہ نگار، ڈراما نویس، شاعر |
زبان | سندھی، اردو |
نسل | سندھی |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایل ایل بی ایم اے (سندھی) |
مادر علمی | ایس ایم لا کالج کراچی سندھ یونیورسٹی |
اصناف | ڈراما، افسانہ |
نمایاں کام | پل تی ویٹھل نوجوان |
حالات زندگی
ترمیمکیہر شوکت 2 فروری، 1952ء کو ضلع دادو، صوبہ سندھ، پاکستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ ان کا آبائی گاؤں آگانی ہے جو ضلع لاڑکانہ میں واقع ہے۔ ان کے والد غلام عباس اپنے روزگارکی وجہ سے ضلع دادو میں رہتے تھے۔
تعلیم
ترمیمشوکت نے اپنی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں آگانی سے، مڈل گاؤں کیہر سے، میٹرک لاڑکانہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے، 1970ء میں بی اے گورنمنٹ کالج دادو سے پاس کیا، 1978ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن میں داخلہ لیا مگر پھر وہاں سے چھوڑ کر ایس ایم لا کالج کراچی میں ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا اور قانون کی ڈگری 1980ء میں حاصل کی۔ بعد میں 1985ء میں ایم اے سندھی میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے پاس کیا۔[1]
ملازمت
ترمیمانھوں نے ملازمت کا آغاز محکمہ تعلیم کراچی سے بطور سندھی لینگویج ٹیچر کیا۔ مگر ایل ایل بی کرنے کے بعد وہ وکالت کرنے لگے۔ اس عرصے میں وہ 1990ء میں پبلک پراسیکیوٹر بن گئے۔ 1995ء میں انھیں اچھی کارکردگی کی وجہ سے پروموشن دے کر میں ڈپٹی اٹارنی جنرل بنایا گیا۔[1]
ادبی و فنی خدمات
ترمیمافسانہ نگاری
ترمیمبچپن میں رات کو سونے سے پہلے بھوتوں اور پریوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں، کیہر شوکت کے ذہن پر ان کہانیوں کا کافی گہرا اثر رہا، پہلے جو کہانیاں لکھی ہیں وہ جن اور بھوتوں کے بارے میں ہیں، جو غالباً 1960ء میں کسی بچوں کے میگزین میں شائع ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی گئی تو ان کی ذہنی سطح بھی پختہ اور وسیع ہوتی رہی۔ اب انھوں نے ادبی کتابیں پڑھنا شروع کیں اور اپنے گاؤں میں ہونے والے واقعات کو اپنے ذہن میں سمیٹتے رہے جنہیں انھوں نے افسانوں اور کہانیوں کی شکل دی۔ انھیں غریبوں سے بے حد محبت اور ہمدردی تھی اور وہ جب انھیں غربت و افلاس، بیماریوں اور بے بسی میں دیکھتے تو انھیں رونا آتا تھا۔ ان جذبات کو انھوں نے تحریروں میں بیان کیا جس کی وجہ سے گاؤں کے زمینداروں نے انھیں دھمکانا شروع کیا۔[1]
کیہرکا پہلا افسانوں کا مجموعہ پُل تے ویٹھل ماٹھوں 1979ء میں شائع ہوا اور اس کے بعد ان کی دوسری کتاب چارکہانیاں اور نقاد مارکیٹ میں آئی۔ ان کتابوں نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی اور ان کا قد ادبی دنیا میں بڑھنے لگا۔[1]
ڈراما نگاری
ترمیمایک دور ایسا بھی آیا کہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی سینٹر سے سندھی ڈراموں اور پروگراموں کا دورانیہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھا دیا گیا، اس ضمن میں شوکت کیہر نے اپنا قلمی تعاون پیش کیا۔ ان کی ملاقات ضلع دادو کے رہنے والے پروڈیوسر محمد بخش سمیجو سے ہوئی، سولو پلے گُھٹَ لکھا جو 1978ء میں آن ایئر ہوا جس کو بہت اچھا رسپانس ملا۔ اس کے بعد کھیل پیلوپتو نشر ہوا جسے ہارون رند نے پروڈیوس کیا تھا۔[1]
ان ڈراموں نے لوگوں کے ذہن پر ان مٹ گہرے اثرات مرتب کیے، کیونکہ ان ٹی وی ڈراموں میں عام آدمی کے مسائل اور پریشانیاں دکھائی گئی تھیں۔ ان کے سندھی کھیل اتنے پسند کیے گئے کہ انھیں اردو زبان میں بھی پیش کیا گیا۔ سورج گرہن،انتہا، چنبیلی کی بیل، ایک دل وہ بھی مجبور، جنت، درندوں کا دیس ایسے ڈرامے تھے جو اردو میں پیش کیے گئے۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے کئی ڈرامے لکھے، ڈراما ناسور کی فرمائش ریڈیو سننے والے آج بھی کرتے رہتے ہیں۔[1]
شاعری
ترمیمشوکت کیہر نے شاعری بھی کی اور تقریباً 250 ہائیکو لکھے۔ ان کی سندھی زبان کے مشہور شاعر استاد بخاری سے اچھی دوستی تھی اور وہ انھیں اپنا استاد بھی مانتے تھے۔[1]
کمپیئرنگ و رپورٹنگ
ترمیمریڈیو اور ٹی وی پر کچھ پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جس میں پی ٹی وی کے لیے چھ مہینے تک اردو میں پروگرام سندھ اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں پارلیمانی نوٹ بک کے نام سے رپورٹ کرتے تھے۔[1]
مجموعی تاثر
ترمیمکیہر شوکت کے لکھنے کا انداز اور لفظوں کا صحیح استعمال اتنا مقبول ہوا کہ انھوں نے کئی ادبی کتابوں کے پیش لفظ لکھے۔ ان کی لکھی ہوئی ایک کہانی پاگل نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی۔ شوکت کے لکھے ہوئے ڈراموں کی وجہ سے پی ٹی وی پر جو لکھنے والوں کی اجارہ داری تھی وہ ختم ہو گئی۔ انھوں نے 26 سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا اور آخر دم تک 40کے قریب اردو اور سندھی ڈرامے اور سیریلزلکھے جس میں اکثریت کی ہدایات محمد بخش سمیجو نے دی تھیں، کیونکہ دونوں میں بہترین ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔[1]
تصانیف
ترمیم- پل تی ویٹھل نوجوان (افسانے)
- چارکہانیاں اور نقاد
وفات
ترمیمکیہر شوکت 23 اپریل 1999ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ لاڑکانہ میں اپنے آبائی گوٹھ میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2]